Abid Adeeb
- 22 Mar 1937
- Udaipur, Rajasthan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
میں اپنے جسم میں کچھ اس طرح سے بکھرا ہوں
میں اپنے جسم میں کچھ اس طرح سے بکھرا ہوں کہ یہ بھی کہہ نہیں سکتا میں کون ہوں کیا ہوں انہیں خوشی ہے اسی
سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں
سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں ہر ایک موڑ پہ کچھ لوگ چھوٹ جاتے ہیں جو رہنے والے ہیں لوگ ان کو گھر
سفر کا شوق نہ منزل کی جستجو باقی
سفر کا شوق نہ منزل کی جستجو باقی مسافروں کے بدن میں نہیں لہو باقی تمام رات ہواؤں کا گشت جاری تھا سویرے تک نہ
یہ میرے شہر کا اک اور حادثہ ہوگا
یہ میرے شہر کا اک اور حادثہ ہوگا وہ کل یہاں مرا مہمان بن چکا ہوگا تلاش میں ہوں کسی کی میں کب سے سرگرداں
کیسی کیسی راہ میں دیواریں کرتے ہیں حائل لوگ
کیسی کیسی راہ میں دیواریں کرتے ہیں حائل لوگ پھر بھی منزل پا لیتے ہیں ہم جیسے زندہ دل لوگ وہ دیکھو ساگر گرجا طوفان
حادثوں سے بے خبر تھے لوگ دھرتی پر تمام
حادثوں سے بے خبر تھے لوگ دھرتی پر تمام آسماں کی نیلگوں آنکھوں میں تھے منظر تمام رفتہ رفتہ رسم سنگ باری جہاں سے اٹھ
کارنامہ اے غم دل کچھ ترا یہ کم نہیں
کارنامہ اے غم دل کچھ ترا یہ کم نہیں بہہ گئے آنکھوں سے دریا اور آنکھیں نم نہیں صاف تھا ہر لفظ اس کی بے
شریک عالم کیف و سرور میں بھی تھا
شریک عالم کیف و سرور میں بھی تھا کہ رات جشن میں تیرے حضور میں بھی تھا عجیب وقت تھا دنیا قریب تھی میرے غضب
پردیس میں ہوں اور گھنی تیرگی تو ہے
پردیس میں ہوں اور گھنی تیرگی تو ہے پر مطمئن ہوں رات ترے شہر کی تو ہے دھرتی پہ آ رہیں گی ابھی سب بلندیاں
جب جب بھی دیکھیے اسے خوں بار سی لگے
جب جب بھی دیکھیے اسے خوں بار سی لگے دنیا ہمیشہ برسر پیکار سی لگے ہر ہر نفس پہ رنگ بدلتی ہے زندگی اک پھول
گیتوں کا شہر ہے کہ نگر سوز و ساز کا
گیتوں کا شہر ہے کہ نگر سوز و ساز کا قلب شکستہ اور یہ عالم گداز کا چاروں طرف سجی ہیں دکانیں خلوص کی چمکا
یہ ہے آب رواں نہ ٹھہرے گا
یہ ہے آب رواں نہ ٹھہرے گا عمر کا کارواں نہ ٹھہرے گا چھوڑ دی ہے جگہ ستونوں نے سر پہ اب سائباں نہ ٹھہرے
Nazm
احساس
پھر مجھے ایسا لگا جیسے کاغذ پر سیاہی پھیلنے سے لفظ گڈمڈ ہو گئے ہوں آئنہ دھندلا گیا ہو جانے پہچانے ہوئے سب لوگ جیسے
سناٹا
مختلف موضوعات پر رات بھر باتیں کرکے وہ لوگ تھک چکے تھے اور پھر ایسے وعدوں میں بندھ گئے تھے جس کا پورا ہونا ممکن
آرزؤں کو وسعت نہ دو
آرزؤں کو وسعت نہ دو اپنے ہی دائرے میں مقید کرو ورنہ یہ پھیل کر ہر طرف سے تمہیں گھیر لیں گی نوچ ڈالیں گی
نہ مرنے کا دکھ
کوئی میرے لرزتے ہاتھ میں کاغذ کا پرزہ اور قلم پکڑا رہا تھا کبھی کچھ زیر لب ہی بڑبڑا کر کوئی اثبات میں آنکھوں کی
ناکامی
وہ جد و جہد کرنا چاہتا تھا مگر جب سے اس نے اپنے جھونپڑے کو پختہ مکان میں بدلنے کا خواب دیکھا تھا وہ کئی
برأت
رگوں میں دوڑتا پھرتا لہو پھر تھم گیا ہے ہوائیں تیز ہیں سانسوں کی ہلچل رک گئی ہے ریڑھ کی ہڈی میں چیونٹی رینگتی ہے
ابن الوقت
آگ کے شعلے اتارو حلق میں گاڑ دو کیلیں دھڑکتی چھاتیوں میں ڈال دو گردن میں پھندے رسیوں کے قتل کر لو خون کی ندیاں
ریگستان کی دوپہر
یہاں تو نہ پیڑ ہے نہ سایہ نہ گھر ہے نہ گھر میں رہنے والے نہ زندگی ہے نہ کوئی ہلچل یہاں تو تا حد
Sher
تنہائی میں یہ کون ہے چونکا گیا مجھے
تنہائی میں یہ کون ہے چونکا گیا مجھے وہ آدمی نہیں نہ سہی پر کوئی تو ہے عابد ادیب
کربلا ہی نے کیے ہیں مرتسم دل پر نقوش
کربلا ہی نے کیے ہیں مرتسم دل پر نقوش ورنہ اس دنیا میں غم کی وارداتیں کم نہیں عابد ادیب
اداس اداس سا کھویا ہوا سا رہتا ہے
اداس اداس سا کھویا ہوا سا رہتا ہے کچھ اس سے بھی کوئی کہہ کر بدل گیا ہوگا عابد ادیب
وہی نظارے وہی گرمئ سخن ہے مگر
وہی نظارے وہی گرمئ سخن ہے مگر نہ ہی وہ بات نہ وہ طرز گفتگو باقی عابد ادیب
جنہیں یہ فکر نہیں سر رہے رہے نہ رہے
جنہیں یہ فکر نہیں سر رہے رہے نہ رہے وہ سچ ہی کہتے ہیں جب بولنے پہ آتے ہیں عابد ادیب
یہ جان کر بھی کہ پتھر ہر ایک ہاتھ میں ہے
یہ جان کر بھی کہ پتھر ہر ایک ہاتھ میں ہے جیالے لوگ ہیں شیشوں کے گھر بناتے ہیں عابد ادیب
جہاں پہنچ کے قدم ڈگمگائے ہیں سب کے
جہاں پہنچ کے قدم ڈگمگائے ہیں سب کے اسی مقام سے اب اپنا راستا ہوگا عابد ادیب
سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں
سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں ہر ایک موڑ پہ کچھ لوگ چھوٹ جاتے ہیں عابد ادیب
امیر کارواں ہے تنگ ہم سے
امیر کارواں ہے تنگ ہم سے ہمارا راستا سب سے الگ ہے عابد ادیب
زمانہ مجھ سے جدا ہو گیا زمانہ ہوا
زمانہ مجھ سے جدا ہو گیا زمانہ ہوا رہا ہے اب تو بچھڑنے کو مجھ سے تو باقی عابد ادیب
شاہراہیں دفعتاً شعلے اگلنے لگ گئیں
شاہراہیں دفعتاً شعلے اگلنے لگ گئیں گھر کی جانب چل پڑا ہے شہر گھیرا کر تمام عابد ادیب
جنہیں یہ فکر نہیں سر رہے رہے نہ رہے
جنہیں یہ فکر نہیں سر رہے رہے نہ رہے وہ سچ ہی کہتے ہیں جب بولنے پہ آتے ہیں عابد ادیب