Shaheen Abbas
- 1965
- Sheikhupura, Pakistan
Introduction
Ghazal
زمیں کا آخری منظر دکھائی دینے لگا
زمیں کا آخری منظر دکھائی دینے لگا میں دیکھتا ہوا پتھر دکھائی دینے لگا وہ سامنے تھا تو کم کم دکھائی دیتا تھا چلا گیا
کچھ بھی نہ جب دکھائی دے تب دیکھتا ہوں میں
کچھ بھی نہ جب دکھائی دے تب دیکھتا ہوں میں پھر بھی یہ خوف سا ہے کہ سب دیکھتا ہوں میں آنکھیں تمہارے ہاتھ پہ
اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی
اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی کبھی ہوتی تھی مٹی اور کبھی ہوتی نہیں تھی بہت پہلے سے افسردہ چلے آتے ہیں
موجۂ خون پریشان کہاں جاتا ہے
موجۂ خون پریشان کہاں جاتا ہے مجھ سے آگے مرا طوفان کہاں جاتا ہے چائے کی پیالی میں تصویر وہی ہے کہ جو تھی یوں
محبت میں نہ جانے کیوں ہمیں فرصت زیادہ ہے
محبت میں نہ جانے کیوں ہمیں فرصت زیادہ ہے ہمارا کام تھوڑا ہے مگر مہلت زیادہ ہے ہمیں اس عالم ہجراں میں بھی رک رک
مرے بننے سے کیا کیا بن رہا تھا
مرے بننے سے کیا کیا بن رہا تھا میں بننے کو اکیلا بن رہا تھا اور اب جب تن چکا تو شرم آئی کئی دن
ایسا نہیں کہ اس نے بنایا نہیں مجھے
ایسا نہیں کہ اس نے بنایا نہیں مجھے جو زخم اس کو آیا ہے آیا نہیں مجھے دیوار کو گرا کے اٹھایا بھی میں نے
بولتے بولتے جب صرف زباں رہ گئے ہم
بولتے بولتے جب صرف زباں رہ گئے ہم تب اشارے سے بتایا کہ کہاں رہ گئے ہم ہمیں اتنی بڑی دنیا کا پتہ تھوڑی تھا
آنکھوں سے یوں چراغوں میں ڈالی ہے روشنی
آنکھوں سے یوں چراغوں میں ڈالی ہے روشنی ہم جیسی چاہتے تھے بنا لی ہے روشنی دریا غروب ہونے چلا تھا کہ آج رات غرقاب
ابتدا سا کچھ انتہا سا کچھ
ابتدا سا کچھ انتہا سا کچھ چل تماشا کریں ذرا سا کچھ سامنے سے یہ کائنات ہٹاؤ ہو رہا ہے مغالطہ سا کچھ سر بسر
نقش تھا اور نام تھا ہی نہیں
نقش تھا اور نام تھا ہی نہیں یعنی میں اتنا عام تھا ہی نہیں خواب سے کام تھا وہاں کہ جہاں خواب کا کوئی کام
اوپر جو پرند گا رہا ہے
اوپر جو پرند گا رہا ہے نیچے کا مذاق اڑا رہا ہے مٹی کا بنایا نقش اس نے اب نقش کا کیا بنا رہا ہے
Sher
اپنی سی خاک اڑا کے بیٹھ رہے
اپنی سی خاک اڑا کے بیٹھ رہے اپنا سا قافلہ بناتے ہوئے شاہین عباس
اب کھلا خواب میں کچھ خواب ملاتا تھا میں
اب کھلا خواب میں کچھ خواب ملاتا تھا میں خاک اڑاتا تھا میں سیاروں کی سیاروں پر شاہین عباس
حرف کے آوازۂ آخر کو کر دیتا ہوں نظم
حرف کے آوازۂ آخر کو کر دیتا ہوں نظم شعر کیا کہتا ہوں خاموشی کو پھیلتا ہوں میں شاہین عباس
اس کے بعد اگلی قیامت کیا ہے کس کو ہوش ہے
اس کے بعد اگلی قیامت کیا ہے کس کو ہوش ہے زخم سہلاتا تھا اور اب داغ دکھلاتا ہوں میں شاہین عباس
یہ دن اور رات کس جانب اڑے جاتے ہیں صدیوں سے
یہ دن اور رات کس جانب اڑے جاتے ہیں صدیوں سے کہیں رکتے تو میں بھی شامل پرواز ہو سکتا شاہین عباس
اک زمانے تک بدن بے خواب بے آداب تھے
اک زمانے تک بدن بے خواب بے آداب تھے پھر اچانک اپنی عریانی کا اندازہ ہوا شاہین عباس
لہو کے کنارے بھی زد پر ہیں دونوں
لہو کے کنارے بھی زد پر ہیں دونوں یہ کیا زخم ہے مندمل ہونے والا شاہین عباس
جب خدا سا کوئی نہیں تو کیوں
جب خدا سا کوئی نہیں تو کیوں مسئلہ بن گیا خدا سا کچھ شاہین عباس
تصویر سے باہر آئے کچھ دیر
تصویر سے باہر آئے کچھ دیر گھر بھر کو اداس کر گئے ہم شاہین عباس
میری آواز پہ کھلتا تھا جو در پہلے پہل
میری آواز پہ کھلتا تھا جو در پہلے پہل میں پریشاں ہوں کہ خاموشی پہ اب کھلتا ہے شاہین عباس
آخرش سب خواب اس منزل پہ پہنچے ہیں جہاں
آخرش سب خواب اس منزل پہ پہنچے ہیں جہاں اپنی آنکھوں کا ہمیں انکار کرنا پڑ گیا شاہین عباس
غبار شام وصل کا بھی چھٹ گیا
غبار شام وصل کا بھی چھٹ گیا یہ آخری حجاب تھا جو ہٹ گیا شاہین عباس