Altaf Hussain Hali
- 1837 – 31 December 1914
- Panipat, India
Introduction
Ghazal
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں ہیں دور جام اول شب میں خُودی سے
جیتے جی مُوت کہ تم منہ میں نہ جانا ہرگز
جیتے جی مُوت کہ تم منہ میں نہ جانا ہرگز دوستو دل نہ لگانا نہ لگانا ہرگز عشق بھی تاک میں بیٹھا ہے نظر بازوں
حق وفا کہ جُو ہم جتانے لگے
حق وفا کہ جُو ہم جتانے لگے آپ کچھ کہہ کہ مسکرانے لگے تھا یہاں دل میں طعن وصل عدو عذر ان کی زباں پہ
دھوم تھی اپنی پارسائی کی
دھوم تھی اپنی پارسائی کی کی بھی اور کس سے آشنائی کی کیوں بڑھاتے ہو اختلاط بہت ہم کو طاقت نہیں جدائی کی منہ کہاں
دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا
دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا سینے میں داغ ہے ، کے مٹایا نہ جائے گا تم کو ہزار شرم سہی ، مُجھ
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں مُجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں قفس میں جی نہیں لگتا کسی طرح لگا دو آگ کوئی آشیاں
رنج اور رنج بھی تنہائی کا
رنج اور رنج بھی تنہائی کا وقت پہنچا میقری رسوائی کا عمر شاید نہ کرے آج وفا کاٹنا ہے شب تنہائی کا تُم نے کیوں
اب وہ اگلا سا التفات نہیں
اب وہ اگلا سا التفات نہیں جس پہ بھولے تھے ، ہم وہ بات نہیں مُجھ کو تم سے اعتماد وفا تُم کو مُجھ سے
آگے بڑھے نہ قصۂ عشق بتاں سے ہم
آگے بڑھے نہ قصۂ عشق بتاں سے ہم سب کچھ کہا مگر نہ کھلے راز داں سے ہم اب بھاگتے ہیں سایۂ عشق بتاں سے
بری اور بھلی سب گزر جائے گی
بری اور بھلی سب گزر جائے گی یہ کشتی یُوں ہی پار اتر جائے گی ملے گا نہ گلچیں کو گل کا پتا ہر اِک
بات کچھ ہم سے بن نہ آئی آج
بات کچھ ہم سے بن نہ آئی آج بول کر ہم نے منہ کی کھائی آج چپ پر اپنی بھرم تھے کیا کیا کچھ بات
گو جوانی میں تھی کج رائی بہت
گو جوانی میں تھی کج رائی بہت پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت زیر برقع تُو نے کیا دکھلا دیا جمع ہیں ہر سو
Nazm
حب وطن
اے سپہر بریں کے سیارو اے فضائے زمیں کے گل زارو اے پہاڑوں کی دل فریب فضا اے لب جو کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اے
کہنا بڑوں کا مانو
ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت کڑوی نصیحتوں میں ان کی بھرا ہے
مناجات بیوہ
(1) اے سب سے اول اور آخر جہاں تہاں، حاضر اور ناظر اے سب داناؤں سے دانا سارے تواناؤں سے توانا اے بالا، ہر بالاتر
نشاط امید
اے مری امید میری جاں نواز اے مری دل سوز میری کارساز میری سپر اور مرے دل کی پناہ درد و مصیبت میں مری تکیہ
برکھارت
گرمی کی تپش بجھانے والی سردی کا پیام لانے والی قدرت کے عجائبات کی کاں عارف کے لیے کتاب عرفاں وہ شاخ و درخت کی
مرثئہ دہلی محروم
تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانا ہرگز داستاں گل کی خزاں میں نہ سنا اے
حب وطن
گر قوم کی خدمت کرتا ہے احسان تو کس پر دھرتا ہے کیوں غیروں کا دم بھرتا ہے کیوں خوف کے مارے مرتا ہے اٹھ
پیام عمل
گر قوم کی خدمت کرتا ہے احسان تو کس پر دھرتا ہے کیوں غیروں کا دم بھرتا ہے کیوں خوف کے مارے مرتا ہے اٹھ
مٹی کا دیا
جھٹپٹے کے وقت گھر سے ایک مٹی کا دیا ایک بڑھیا نے سر رہ لا کے روشن کر دیا تاکہ رہگیر اور پردیسی کہیں ٹھوکر
مرثیہ دہلی ۴
تذکرہ دہلیٔ مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز داستاں گل کی خزاں میں نہ سنا اے
دکن
یہ مقولہ ہند میں مدت سے ہے ضرب المثل جو کہ جا پہنچا دکن میں بس وہیں کا ہو رہا پارسی ہندو مسلماں یا مسیحی
انگلستان کی آزادی اور ہندوستان کی غلامی
کہتے ہیں آزاد ہو جاتا ہے جب لیتا ہے سانس یاں غلام آ کر کرامت ہے ہی انگلستان کی اس کی سرحد میں غلاموں نے
Sher
ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت
ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت .ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت الطاف حسین حالی
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا .مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ الطاف حسین حالی
ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی
ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی .دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں الطاف حسین حالی
بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر
بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر .ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں الطاف حسین حالی
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور .عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں الطاف حسین حالی
صدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی
صدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی .چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی الطاف حسین حالی
جانور آدمی فرشتہ خدا
جانور آدمی فرشتہ خدا .آدمی کی ہیں سیکڑوں قسمیں الطاف حسین حالی
عشق سنتے تھے جسے ہم وہ یہی ہے شاید
عشق سنتے تھے جسے ہم وہ یہی ہے شاید .خود بخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا الطاف حسین حالی
فراغت سے دنیا میں ہر دم نہ بیٹھو
فراغت سے دنیا میں ہر دم نہ بیٹھو .اگر چاہتے ہو فراغت زیادہ الطاف حسین حالی
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا .شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا الطاف حسین حالی
دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا
دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا .سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا الطاف حسین حالی
تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط
تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط .الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا الطاف حسین حالی
Rubai
عالم و جاہل میں کیا فرق ہے
ہیں جہل میں سب عالم و جاہل ہمسر آتا نہیں فرق اس کے سوا ان میں نظر عالم کو ہے علم اپنی نادانی کا جاہل
سختی کا جواب نرمی ہ
فتنہ کو جہاں تلک ہو دیجے تسکیں زہر اگلے کوئی تو کیجے باتیں شیریں غصہ غصے کو اور بھڑکاتا ہے اس عارضہ کا علاج بالمثل
عشق
اے عشق کیا تو نے گھرانوں کو تباہ پیروں کو خرف اور جوانوں کو تباہ دیکھا ہے سدا سلامتی میں تیری قوموں کو ذلیل خاندانوں
جب مایوسی دلوں پہ چھا جاتی ہے
جب مایوسی دلوں پہ چھا جاتی ہے دشمن سے بھی نام تیرا جپواتی ہے ممکن ہے کہ سکھ میں بھول جائیں اطفال لیکن انہیں دکھ
توحید
کانٹا ہے ہر اک جگر میں اٹکا تیرا حلقہ ہے ہر اک گوش میں لٹکا تیرا مانا نہیں جس نے تجھ کو جانا ہے ضرور
انقلاب روزگار
بس بس کے ہزاروں گھر اجڑ جاتے ہیں گڑ گڑ کے علم لاکھوں اکھڑ جاتے ہیں آج اس کی ہے نوبت تو کل اس کی
نعت
زہاد کو تو نے محو تمجید کیا عشاق کو مست لذت دید کیا طاعت میں رہا نہ حق کی ساجھی کوئی توحید کو تو نے
اے عیش و طرب تو نے جہاں راج کیا
اے عیش و طرب تو نے جہاں راج کیا سلطاں کو گدا غنی کو محتاج کیا ویراں کیا تو نے نینواؔ اور بابلؔ بغداد کو
مخالفت کا جواب خاموشی سے بہتر نہیں
حق بول کے اہل شر سے اڑنا نہ کہیں بھڑکے گی مدافعت سے اور آتش کیں گر چاہتے ہو کہ چپ رہیں اہل خلاف جز
مکر و ریا
حالیؔ رہ راست جو کہ چلتے ہیں سدا خطرہ انہیں گرگ کا نہ ڈر شیروں کا لیکن ان بھیڑیوں سے واجب ہے حذر بھیڑوں کے
وقت کی مساعدت
اے وقت بگاڑ کا ہے سب کے چارہ پر تجھ سے بگڑنے کا نہیں ہے یارا ہو جائے گر ایک تو ہمارا ساتھی پھر غم
تقاضائے سن
حالیؔ کو جو کل فسردہ خاطر پایا پوچھا باعث تو ہنس کے یہ فرمایا رکھو نہ اب اگلی صحبتوں کی امید وہ وقت گئے اب
Naat
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی بر لانے والا مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا وہ اپنے پرائے کا غم
Hamd
حمد
اے زمین آسمان کے مالک ساری دنیا جہان کے مالک تیرے قبضے میں سب خدائی ہے تیرے ہی واسطے بڑائی ہے آئی موسم سے تنگ
Masnavi
فقط چند نسخوں کا ہے وہ سفینہ
فقط چند نسخوں کا ہے وہ سفینہ چلے آئے ہیں جو کہ سینہ بہ سینہ نہ ان کو نباتات سے آگہی ہے نہ اصلاً خبر
Humour/Satire
میڈیکل ٹیسٹ
دو ملازم ایک کالا اور گورا دوسرا دوسرا پیدل مگر پہلا سوار راہ وار تھے سول سرجن کی کوٹھی کی طرف دونوں رواں کیونکہ بیماری
Qisse
غزل کی اصلاح
مولانا حالی ؔکے پاس ان کے ایک ملنے والے غزل لکھ کر لائے اور برائے اصلاح پیش کی۔ غزل میں کوئی بھی مصرعہ عیب سے
مجزوب کا رد عمل اور مولوی کی مسکراہٹ
مولانا حالیؔ کے مقامی دوستوں میں مولوی وحید الدین سلیم (لٹریری اسسٹنٹ سر سید احمد خاں) بھی تھے۔ جب یہ پانی پت میں ہوتے تو
ہالی موالی کا مولوی ہونا
ایک مرتبہ مولانا حالیؔ سہارنپور تشریف لے گئے اور وہاں ایک معزز رئیس کے پاس ٹھہرے جو بڑے زمیندار بھی تھے۔ گرمی کے دن تھے
شادی کے بعد
غالباً 1909ء کی بات ہے کہ مولوی محمد یحییٰ تنہا وکیل میرٹھ نے مولانا حالی ؔکو اپنی شادی میں پانی پت بلایا۔ شادی کے بعد