Ada Jafri
- 22 August 1924 -12 March 2015
- Badayun, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Ada Jafri was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
آخری ٹیس آزمانے کو
آخری ٹیس آزمانے کو جی تو چاہا تھا مسکرانے کو یاد اتنی بھی سخت جاں تو نہیں اک گھروندا رہا ہے ڈھانے کو سنگریزوں میں
اچانک دل ربا موسم کا دل آزار ہو جانا
اچانک دل ربا موسم کا دل آزار ہو جانا دعا آساں نہیں رہنا سخن دشوار ہو جانا تمہیں دیکھیں نگاہیں اور تم کو ہی نہیں
گھر کا رستہ بھی ملا تھا شاید
گھر کا رستہ بھی ملا تھا شاید راہ میں سنگ وفا تھا شاید اس قدر تیز ہوا کے جھونکے شاخ پر پھول کھلا تھا شاید
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے آئے تو سہی بر سر الزام ہی آئے حیران ہیں لب بستہ ہیں دلگیر ہیں غنچے
ایک آئینہ رو بہ رو ہے ابھی
ایک آئینہ رو بہ رو ہے ابھی اس کی خوشبو سے گفتگو ہے ابھی وہی خانہ بدوش امیدیں وہی بے صبر دل کی خو ہے
گلوں سی گفتگو کریں قیامتوں کے درمیاں
گلوں سی گفتگو کریں قیامتوں کے درمیاں ہم ایسے لوگ اب ملیں حکایتوں کے درمیاں لہولہان انگلیاں ہیں اور چپ کھڑی ہوں میں گل و
چاک دل بھی کبھی سلتے ہوں گے
چاک دل بھی کبھی سلتے ہوں گے لوگ بچھڑے ہوئے ملتے ہوں گے روز و شب کے انہی ویرانوں میں خواب کے پھول تو کھلتے
دیپ تھا یا تارا کیا جانے
دیپ تھا یا تارا کیا جانے دل میں کیوں ڈوبا کیا جانے گل پر کیا کچھ بیت گئی ہے البیلا جھونکا کیا جانے آس کی
ویسے ہی خیال آ گیا ہے
ویسے ہی خیال آ گیا ہے یا دل میں ملال آ گیا ہے آنسو جو رکا وہ کشت جاں میں بارش کی مثال آ گیا
اجالا دے چراغ رہ گزر آساں نہیں ہوتا
اجالا دے چراغ رہ گزر آساں نہیں ہوتا ہمیشہ ہو ستارا ہم سفر آساں نہیں ہوتا جو آنکھوں اوٹ ہے چہرہ اسی کو دیکھ کر
کیا جانئے کس بات پہ مغرور رہی ہوں
کیا جانئے کس بات پہ مغرور رہی ہوں کہنے کو تو جس راہ چلایا ہے چلی ہوں تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے
کانٹا سا جو چبھا تھا وہ لو دے گیا ہے کیا
کانٹا سا جو چبھا تھا وہ لو دے گیا ہے کیا گھلتا ہوا لہو میں یہ خورشید سا ہے کیا پلکوں کے بیچ سارے اجالے
Nazm
وہ لمحہ
اسے تو ہوش ہی نہ تھا کھلی ہتھیلیوں پہ جو نصاب ہجر لکھ گیا کہ وقت کیسے تھم گیا ادا جعفری
شکست ساز
میں نے گل ریز بہاروں کی تمنا کی تھی مجھے افسردہ نگاہوں کے سوا کچھ نہ ملا چند سہمی ہوئی آہوں کے سوا کچھ نہ
جو دل ستارہ خو نہ ہو
جو دل ستارہ خو نہ ہو نہ بادباں کھلے کبھی نہ سائباں ملے کہیں پناہ چار سو نہ ہو ادا جعفری
آشوب آگہی
جیسے دریا کنارے کوئی تشنہ لب آج میرے خدا میں یہ تیرے سوا اور کس سے کہوں میرے خوابوں کے خورشید و مہتاب سب میرے
نقش بر آب
سال ہا سال محبت جو بنا کرتی ہے رشتہ قلب و نظر پلہ ریشم کی طرح ایک جھونکا بھی حوادث کا اسے کافی ہے پہلوئے
سنو
جان تم کو خبر تک نہیں لوگ اکثر برا مانتے ہیں کہ میری کہانی کسی موڑ پر بھی اندھیری گلی سے گزرتی نہیں کہ تم
خالی ہاتھ
جب اس کے ساتھ تھی میں اس وسیع کائنات میں نفس نفس قدم قدم نظر نظر امیر تھی اور اب غبار روز و شب کے
ساز سخن بہانہ ہے
غبار صبح و شام میں تجھے تو کیا میں اپنا عکس دیکھ لوں میں اپنا اسم سوچ لوں نہیں مری مجال بھی کہ لڑکھڑا کے
تم بھی
مدتوں بعد آئی ہو تم اور تمہیں اتنی فرصت کہاں ان کہے حرف بھی سن سکو آرزو کی وہ تحریر بھی پڑھ سکو جو ابھی
میں ساز ڈھونڈتی رہی
احساس اولیں ایک موہوم اضطراب سا ہے اک تلاطم سا پیچ و تاب سا ہے امڈے آتے ہیں خودبخود آنسو دل پہ قابو نہ آنکھ
وہ لمحہ جو میرا تھا
اک دن تم نے مجھ سے کہا تھا دھوپ کڑی ہے اپنا سایہ ساتھ ہی رکھنا وقت کے ترکش میں جو تیر تھے کھل کر
یہ بستیاں ویراں نہیں
نہیں یہ بستیاں ویراں نہیں اب بھی یہاں کچھ لوگ رہتے ہیں یہ وہ ہیں جو کبھی زخم وفا بازار تک آنے نہیں دیتے یہاں
Sher
لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے
لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے وہم سا دل کو ہوا تھا شاید ادا جعفری
ہزار کوس نگاہوں سے دل کی منزل تک
ہزار کوس نگاہوں سے دل کی منزل تک کوئی قریب سے دیکھے تو ہم کو پہچانے ادا جعفری
ریت بھی اپنی رت بھی اپنی
ریت بھی اپنی رت بھی اپنی دل رسم دنیا کیا جانے ادا جعفری
آ دیکھ کہ میرے آنسوؤں میں
آ دیکھ کہ میرے آنسوؤں میں یہ کس کا جمال آ گیا ہے ادا جعفری
ہوا یوں کہ پھر مجھے زندگی نے بسر کیا
ہوا یوں کہ پھر مجھے زندگی نے بسر کیا کوئی دن تھے جب مجھے ہر نظارہ حسیں ملا ادا جعفری
کچھ اتنی روشنی میں تھے چہروں کے آئنہ
کچھ اتنی روشنی میں تھے چہروں کے آئنہ دل اس کو ڈھونڈھتا تھا جسے جانتا نہ تھا ادا جعفری
گل پر کیا کچھ بیت گئی ہے
گل پر کیا کچھ بیت گئی ہے البیلا جھونکا کیا جانے ادا جعفری
جس کی جانب ادا نظر نہ اٹھی
جس کی جانب اداؔ نظر نہ اٹھی حال اس کا بھی میرے حال سا تھا ادا جعفری
بس ایک بار منایا تھا جشن محرومی
بس ایک بار منایا تھا جشن محرومی پھر اس کے بعد کوئی ابتلا نہیں آئی ادا جعفری
بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا ادا جعفری
جو دل میں تھی نگاہ سی نگاہ میں کرن سی تھی
جو دل میں تھی نگاہ سی نگاہ میں کرن سی تھی وہ داستاں الجھ گئی وضاحتوں کے درمیاں ادا جعفری
ایک آئینہ رو بہ رو ہے ابھی
ایک آئینہ رو بہ رو ہے ابھی اس کی خوشبو سے گفتگو ہے ابھی ادا جعفری