Bekhud Dehlvi
- 21 March 1863 - 2 October 1955
- Bharatpur, Rajasthan
Introduction
Ghazal
ایسا بنا دیا تجھے قدرت خدا کی ہے
ایسا بنا دیا تجھے قدرت خدا کی ہے کس حسن کا ہے حسن ادا کس ادا کی ہے چشم سیاہ یار سے سازش حیا کی
مجھ کو نہ دل پسند نہ وہ بے وفا پسند
مجھ کو نہ دل پسند نہ وہ بے وفا پسند دونوں ہیں خود غرض مجھے دونوں ہیں نا پسند یہ دل وہی تو ہے جو
عاشق سمجھ رہے ہیں مجھے دل لگی سے آپ
عاشق سمجھ رہے ہیں مجھے دل لگی سے آپ واقف نہیں ابھی مرے دل کی لگی سے آپ دل بھی کبھی ملا کے ملے ہیں
دے محبت تو محبت میں اثر پیدا کر
دے محبت تو محبت میں اثر پیدا کر جو ادھر دل میں ہے یا رب وہ ادھر پیدا کر دود دل عشق میں اتنا تو
بے وفا کہنے سے کیا وہ بے وفا ہو جائے گا
بے وفا کہنے سے کیا وہ بے وفا ہو جائے گا تیرے ہوتے اس صفت کا دوسرا ہو جائے گا شرط کر لو پھر مجھے
عدو کے تاکنے کو تم ادھر دیکھو ادھر دیکھو
عدو کے تاکنے کو تم ادھر دیکھو ادھر دیکھو مگر ہم تم کو دیکھے جائیں تم چاہو جدھر دیکھو لڑائی سے یوں ہی تو روکتے
بزم دشمن میں بلاتے ہو یہ کیا کرتے ہو
بزم دشمن میں بلاتے ہو یہ کیا کرتے ہو اور پھر آنکھ چراتے ہو یہ کیا کرتے ہو بعد میرے کوئی مجھ سا نہ ملے
آ گئے پھر ترے ارمان مٹانے ہم کو
آ گئے پھر ترے ارمان مٹانے ہم کو دل سے پہلے یہ لگا دیں گے ٹھکانے ہم کو سر اٹھانے نہ دیا حشر کے دن
معشوق ہمیں بات کا پورا نہیں ملتا
معشوق ہمیں بات کا پورا نہیں ملتا دل جس سے ملائیں کوئی ایسا نہیں ملتا دنیا میں اگر ڈھونڈیئے تو کیا نہیں ملتا سب ملتے
منہ پھیر کر وہ کہتے ہیں بس مان جائیے
منہ پھیر کر وہ کہتے ہیں بس مان جائیے اس شرم اس لحاظ کے قربان جائیے بھولے نہیں ہیں ہم وہ مدارات رات کی جی
وہ دیکھتے جاتے ہیں کنکھیوں سے ادھر بھی
وہ دیکھتے جاتے ہیں کنکھیوں سے ادھر بھی چلتا ہوا جادو ہے محبت کی نظر بھی اٹھنے کی نہیں دیکھیے شمشیر نظر بھی پہلے ہی
پچھتاؤگے پھر ہم سے شرارت نہیں اچھی
پچھتاؤگے پھر ہم سے شرارت نہیں اچھی یہ شوخ نگاہی دم رخصت نہیں اچھی سچ یہ ہے کہ گھر سے ترے جنت نہیں اچھی حوروں
Naat
روشن ہمارا دل ہے محمد کے نور سے
روشن ہمارا دل ہے محمد کے نور سے لائے ہیں اس چراغ کو ہم کوہ طور سے موسیٰ نے اس کو طور پہ دیکھا تھا
Sher
وہ کچھ مسکرانا وہ کچھ جھینپ جانا
وہ کچھ مسکرانا وہ کچھ جھینپ جانا جوانی ادائیں سکھاتی ہیں کیا کیا بیخود دہلوی
آئینہ دیکھ کر وہ یہ سمجھے
آئینہ دیکھ کر وہ یہ سمجھے مل گیا حسن بے مثال ہمیں بیخود دہلوی
جادو ہے یا طلسم تمہاری زبان میں
جادو ہے یا طلسم تمہاری زبان میں تم جھوٹ کہہ رہے تھے مجھے اعتبار تھا بیخود دہلوی
سن کے ساری داستان رنج و غم
سن کے ساری داستان رنج و غم کہہ دیا اس نے کہ پھر ہم کیا کریں بیخود دہلوی
دل محبت سے بھر گیا بیخود
دل محبت سے بھر گیا بیخودؔ اب کسی پر فدا نہیں ہوتا بیخود دہلوی
ادائیں دیکھنے بیٹھے ہو کیا آئینہ میں اپنی
ادائیں دیکھنے بیٹھے ہو کیا آئینہ میں اپنی دیا ہے جس نے تم جیسے کو دل اس کا جگر دیکھو بیخود دہلوی
بات وہ کہئے کہ جس بات کے سو پہلو ہوں
بات وہ کہئے کہ جس بات کے سو پہلو ہوں کوئی پہلو تو رہے بات بدلنے کے لیے بیخود دہلوی
راہ میں بیٹھا ہوں میں تم سنگ رہ سمجھو مجھے
راہ میں بیٹھا ہوں میں تم سنگ رہ سمجھو مجھے آدمی بن جاؤں گا کچھ ٹھوکریں کھانے کے بعد بیخود دہلوی
دل تو لیتے ہو مگر یہ بھی رہے یاد تمہیں
دل تو لیتے ہو مگر یہ بھی رہے یاد تمہیں جو ہمارا نہ ہوا کب وہ تمہارا ہوگا بیخود دہلوی
مجھ کو نہ دل پسند نہ وہ بے وفا پسند
مجھ کو نہ دل پسند نہ وہ بے وفا پسند دونوں ہیں خود غرض مجھے دونوں ہیں نا پسند بیخود دہلوی
حوروں سے نہ ہوگی یہ مدارات کسی کی
حوروں سے نہ ہوگی یہ مدارات کسی کی یاد آئے گی جنت میں ملاقات کسی کی بیخود دہلوی
ہمیں پینے سے مطلب ہے جگہ کی قید کیا بیخود
ہمیں پینے سے مطلب ہے جگہ کی قید کیا بیخودؔ اسی کا نام جنت رکھ دیا بوتل جہاں رکھ دی بیخود دہلوی