![Abdul Hamid Adam 1 jpg 20230721 190333 0000](https://iztirab.com/wp-content/uploads/2023/07/jpg_20230721_190333_0000-1024x1024.jpg)
Abdul Hamid Adam
- 10 April 1909-10 March 1981
- Gujranwala, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Abdul Hamid Adam was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
خالی ہے ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں
خالی ہے ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں اے گردش ایام میں کچھ سوچ رہا ہوں ساقی تجھے اک تھوڑی سی تکلیف تو ہوگی
ہنس کے بولا کرو بلایا کرو
ہنس کے بولا کرو بلایا کرو آپ کا گھر ہے آیا جایا کرو مسکراہٹ ہے حسن کا زیور روپ بڑھتا ہے مسکرایا کرو حد سے
جب ترے نین مسکراتے ہیں
جب ترے نین مسکراتے ہیں زیست کے رنج بھول جاتے ہیں کیوں شکن ڈالتے ہو ماتھے پر بھول کر آ گئے ہیں جاتے ہیں کشتیاں
ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے
ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے مطرب رباب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے رک رک کے ساز چھیڑ کہ دل مطمئن نہیں تھم تھم
آنکھوں سے تری زلف کا سایہ نہیں جاتا
آنکھوں سے تری زلف کا سایہ نہیں جاتا آرام جو دیکھا ہے بھلایا نہیں جاتا اللہ رے نادان جوانی کی امنگیں جیسے کوئی بازار سجایا
ہلکا ہلکا سرور ہے ساقی
ہلکا ہلکا سرور ہے ساقی بات کوئی ضرور ہے ساقی تیری آنکھوں کو کر دیا سجدہ میرا پہلا قصور ہے ساقی تیرے رخ پر ہے
مطلب معاملات کا کچھ پا گیا ہوں میں
مطلب معاملات کا کچھ پا گیا ہوں میں ہنس کر فریب چشم کرم کھا گیا ہوں میں بس انتہا ہے چھوڑیئے بس رہنے دیجئے خود
مسکرا کر خطاب کرتے ہو
مسکرا کر خطاب کرتے ہو عادتیں کیوں خراب کرتے ہو مار دو مجھ کو رحم دل ہو کر کیا یہ کار ثواب کرتے ہو مفلسی
وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں
وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں آدمی بے نظیر ہوتے ہیں دیکھنے والا اک نہیں ملتا آنکھ والے کثیر ہوتے ہیں جن کو دولت حقیر
لہرا کے جھوم جھوم کے لا مسکرا کے لا
لہرا کے جھوم جھوم کے لا مسکرا کے لا پھولوں کے رس میں چاند کی کرنیں ملا کے لا کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی
اتنا تو دوستی کا صلہ دیجئے مجھے
اتنا تو دوستی کا صلہ دیجئے مجھے اپنا سمجھ کے زہر پلا دیجئے مجھے اٹھے نہ تاکہ آپ کی جانب نظر کوئی جتنی بھی تہمتیں
دیکھ کر دل کشی زمانے کی
دیکھ کر دل کشی زمانے کی آرزو ہے فریب کھانے کی اے غم زندگی نہ ہو ناراض مجھ کو عادت ہے مسکرانے کی ظلمتوں سے
Sher
جن سے انساں کو پہنچتی ہے ہمیشہ تکلیف
جن سے انساں کو پہنچتی ہے ہمیشہ تکلیف ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اصل خدا والے ہیں عبد الحمید عدم
دل ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں
دل ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں دوستوں کی مہربانی چاہئے عبد الحمید عدم
اے غم زندگی نہ ہو ناراض
اے غم زندگی نہ ہو ناراض مجھ کو عادت ہے مسکرانے کی عبد الحمید عدم
بڑھ کے طوفان کو آغوش میں لے لے اپنی
بڑھ کے طوفان کو آغوش میں لے لے اپنی ڈوبنے والے ترے ہاتھ سے ساحل تو گیا عبد الحمید عدم
تکلیف مٹ گئی مگر احساس رہ گیا
تکلیف مٹ گئی مگر احساس رہ گیا خوش ہوں کہ کچھ نہ کچھ تو مرے پاس رہ گیا عبد الحمید عدم
اک حسیں آنکھ کے اشارے پر
اک حسیں آنکھ کے اشارے پر قافلے راہ بھول جاتے ہیں عبد الحمید عدم
حسن اک دل ربا حکومت ہے
حسن اک دل ربا حکومت ہے عشق اک قدرتی غلامی ہے عبد الحمید عدم
میں مے کدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا
میں مے کدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھا عبد الحمید عدم
بارش شراب عرش ہے یہ سوچ کر عدمؔ
بارش شراب عرش ہے یہ سوچ کر عدمؔ بارش کے سب حروف کو الٹا کے پی گیا عبد الحمید عدم
مسکراہٹ ہے حسن کا زیور
مسکراہٹ ہے حسن کا زیور مسکرانا نہ بھول جایا کرو عبد الحمید عدم
کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں
کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں جا مے کدے سے میری جوانی اٹھا کے لا عبد الحمید عدم
ساقی مجھے شراب کی تہمت نہیں پسند
ساقی مجھے شراب کی تہمت نہیں پسند مجھ کو تری نگاہ کا الزام چاہیئے عبد الحمید عدم
Qita
شکن نہ ڈال جبیں پر شراب دیتے ہوئے
شکن نہ ڈال جبیں پر شراب دیتے ہوئے یہ مسکراتی ہوئی چیز مسکرا کے پلا سرور چیز کی مقدار پر نہیں موقوف شراب کم ہے
روح کو ایک آہ کا حق ہے
روح کو ایک آہ کا حق ہے آنکھ کو اک نگاہ کا حق ہے ایک دل میں بھی لے کے آیا ہوں مجھ کو بھی
کون ہے جس نے مے نہیں چکھی
کون ہے جس نے مے نہیں چکھی کون جھوٹی قسم اٹھاتا ہے میکدے سے جو بچ نکلتا ہے تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے عبد
تیرگی کے گھنے حجابوں میں
تیرگی کے گھنے حجابوں میں دور کے چاند جھلملاتے ہیں زندگی کی اداس راتوں میں بے وفا دوست یاد آتے ہیں عبد الحمید عدم
دل کی ہستی بکھر گئی ہوتی
دل کی ہستی بکھر گئی ہوتی روح کے زخم بھر گئے ہوتے زندگی آپ کی نوازش ہے ورنہ ہم لوگ مر گئے ہوتے عبد الحمید
صورت کے آئنے میں دل پائمال دیکھ
صورت کے آئنے میں دل پائمال دیکھ الفت کی واردات کا حسن مثال دیکھ جب اس کا نام آئے کسی کی زبان پر اس وقت
نہ خدا ہے نہ ناخدا ساتھی
نہ خدا ہے نہ ناخدا ساتھی ناؤ کو آپ ہی چلانا ہے یا بغاوت سے پار اترنا ہے یا رعونت سے ڈوب جانا ہے عبد
چلتے چلتے تمام رستوں سے
چلتے چلتے تمام رستوں سے مست و مسرور آ گئے ہیں ہم اب جبیں سے نقاب الٹ دیجے شہر سے دور آ گئے ہیں ہم
زندگی ہے کہ اک حسین سزا
زندگی ہے کہ اک حسین سزا زیست اپنی ہے غم پرائے ہیں ہم بھی کن مفلسوں کی دنیا میں قرض کی سانس لینے آئے ہیں
مایوس ہو گئی ہے دعا بھی جبین بھی
مایوس ہو گئی ہے دعا بھی جبین بھی اٹھنے لگا ہے دل سے خدا کا یقین بھی تسکیں کی ایک سانس ہمیں بخش دیجئے یہ
اب بھی سازوں کے تار ہلتے ہیں
اب بھی سازوں کے تار ہلتے ہیں اب بھی شاخوں پہ پھول کھلتے ہیں تم نے ہم کو بھلا دیا تو کیا اب بھی راہوں
وصل کی شب ہے اور سینے میں
وصل کی شب ہے اور سینے میں ایک مدہوش آگ کا رس ہے آج سارے چراغ گل کر دو آج اندھیرا بڑا مقدس ہے عبد