Aah Sambhali
- Sambhalpur, India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
جاگنا سائے میں اور دھوپ میں سونا اس کا
جاگنا سائے میں اور دھوپ میں سونا اس کا اس کے احساس سے ثابت تھا نہ ہونا اس کا اک ستم پیشہ طبیعت کا پتہ
اداسیوں کا مسلسل یہ دور چلنا ہے
اداسیوں کا مسلسل یہ دور چلنا ہے نہ کوئی حادثہ ہونا نہ جی بہلنا ہے وہ اور ہوں گے ملا جن کو روشنی کا سفر
مجھے بھی پڑھ لو کہ حرف ثواب بن جاؤں
مجھے بھی پڑھ لو کہ حرف ثواب بن جاؤں ورق ورق ہوں کسی دن کتاب بن جاؤں مرے بغیر بھی کچھ دن گزار لے اے
وہ تو ہے دشمن جاں داد وفا کیا دے گا
وہ تو ہے دشمن جاں داد وفا کیا دے گا جو کبھی زہر نہ دے پایا دوا کیا دے گا کل کہیں آج کہیں اپنا
یہاں مکینوں سے خالی مکان رہتے ہیں
یہاں مکینوں سے خالی مکان رہتے ہیں محبتیں نہیں رہتیں گمان رہتے ہیں خدا کرے کہ سنے تو زبان خاموشی ترے پڑوس میں کچھ بے
اب نہ وہ عشق نہ کچھ اس کی خبر باقی ہے
اب نہ وہ عشق نہ کچھ اس کی خبر باقی ہے ہے سفر ختم اک آشوب سفر باقی ہے جلنے پاتا نہیں کوئی دیا کوئی
سدا بہار جو تھے درد وہ پرانے گئے
سدا بہار جو تھے درد وہ پرانے گئے ہمارے ساتھ میں موسم بھی سب سہانے گئے تجھے خبر نہیں تعمیر نو کے پاگل پن چھتیں
تعلقات مسلسل بھی تازیانے تھے
تعلقات مسلسل بھی تازیانے تھے وہ دھاگے ٹوٹ گئے جو بہت پرانے تھے ترے ملن سے ترا انتظار بہتر تھا بنے نہ جسم جو سائے
صبح بے نور نہ ہو دھیان میں رکھ
صبح بے نور نہ ہو دھیان میں رکھ ایک سورج کو گریبان میں رکھ دن میں کچھ اور ہوں شب میں کچھ اور لمحہ لمحہ
وہ واہمہ ہے کہاں یہ اصول جانا تھا
وہ واہمہ ہے کہاں یہ اصول جانا تھا ملے تھے اس سے تو پھر اس کو بھول جانا تھا گنوا دی عمر کسی ربط رائیگاں
مت فکر مداوا کر اے دست مسیحائی
مت فکر مداوا کر اے دست مسیحائی دریاؤں سے گہری ہے اس زخم کی گہرائی اک منزل ہجرت میں جب یاد تری آئی رنگوں کو
کوئی رکنے کی ترے شہر میں تدبیر نہ تھی
کوئی رکنے کی ترے شہر میں تدبیر نہ تھی میرے ہاتھوں میں تری زلف بھی زنجیر نہ تھی دیکھ کر تم کو سرابوں کا تماشا
Sher
گنوا دی عمر کسی ربط رائیگاں کے لئے
گنوا دی عمر کسی ربط رائیگاں کے لئے ہمیں تو ٹوٹتے رشتوں کو بھول جانا تھا آہ سنبھلی
کھلیں آنکھیں جو بعد از وقت تو اب کیا تلافی ہو
کھلیں آنکھیں جو بعد از وقت تو اب کیا تلافی ہو سفینہ دیکھنے والو سمندر دیکھ لینا تھا آہ سنبھلی