Gopal Mittal
- 11 June 1901-15 March 1993
- Malerkotla, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Gopal Mittal was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
رنگینی ہوس کا وفا نام رکھ دیا
رنگینی ہوس کا وفا نام رکھ دیا خوددارئ وفا کا جفا نام رکھ دیا انسان کی جو بات سمجھ میں نہ آ سکی انساں نے
عشق میں کب یہ ضروری ہے کہ رویا جائے
عشق میں کب یہ ضروری ہے کہ رویا جائے یہ نہیں داغ ندامت جسے دھویا جائے دوپہر ہجر کی تپتی ہوئی سر پر ہے کھڑی
مجھ پہ تو مہربان ہے پیارے
مجھ پہ تو مہربان ہے پیارے یہ بھی اک امتحان ہے پیارے یہ ترا آستان جلوہ ہے میرے دل کی بھی شان ہے پیارے کون
دل جلانے سے کہاں دور اندھیرا ہوگا
دل جلانے سے کہاں دور اندھیرا ہوگا رات یہ وہ ہے کہ مشکل سے سویرا ہوگا کیوں نہ اب وضع جنوں ترک کریں لوٹ چلیں
شعر کہنے کا مزہ ہے اب تو
شعر کہنے کا مزہ ہے اب تو دل کا ہر زخم ہرا ہے اب تو اتنا بے صرفہ نہ تھا دل کا لہو باغ دامن
شکوہ اب گردش ایام کا کرتے کیوں ہو
شکوہ اب گردش ایام کا کرتے کیوں ہو خواب دیکھے تھے تو تعبیر سے ڈرتے کیوں ہو خوف پاداش کا لفظوں میں کہیں چھپتا ہے
عشق فانی نہ حسن فانی ہے
عشق فانی نہ حسن فانی ہے ان کا ہر لمحہ جاودانی ہے دیکھ رندوں پہ اتنا طعن نہ کر دیکھ رت کس قدر سہانی ہے
دور فلک کے شکوے گلے روزگار کے
دور فلک کے شکوے گلے روزگار کے ہیں مشغلے یہی دل ناکردہ کار کے یوں دل کو چھیڑ کر نگۂ ناز جھک گئی چھپ جائے
اپنے انجام سے ڈرتا ہوں میں
اپنے انجام سے ڈرتا ہوں میں دل دھڑکتا ہے کہ سچا ہوں میں میرا ساقی ہے بڑا دریا دل پھر بھی پیاسا ہوں کہ صحرا
شاداں نہ ہو گر مجھ پہ کڑا وقت پڑا ہے
شاداں نہ ہو گر مجھ پہ کڑا وقت پڑا ہے تو زد میں ہے جس وقت کی اس سے بھی کڑا ہے ہے دھوپ مرے
اگرچہ بے حسیٔ دل مجھے گوارا نہیں
اگرچہ بے حسیٔ دل مجھے گوارا نہیں بغیر ترک محبت بھی کوئی چارہ نہیں میں کیا بتاؤں مرے دل پہ کیا گزرتی ہے بجا کہ
تیرا خلوص دل تو محل نظر نہیں
تیرا خلوص دل تو محل نظر نہیں پر کچھ تو ہے جو تیری زباں میں اثر نہیں اب وہ نہیں ہے جلوۂ شام و سحر
Nazm
ایک حسن فروش لڑکی کے نام
مری جاں گو تجھے دل سے بھلایا جا نہیں سکتا مگر یہ بات میں اپنی زباں پر لا نہیں سکتا میں تجھ کو چاہتا ہوں
نظم
یہ سچ ہے ہم جسے مصلوب کرنے جا رہے ہیں وہ نہ رہزن ہے نہ زانی ہے مگر یہ جرم اس کا کم نہیں ہے
نظم
یوں اچانک ملاقات تجھ سے ہوئی جیسے رہ گیر کو بے طلب بے دعا راہ میں ایک انمول موتی ملے اور ہنگام رخصت یہ احساس
نظم
تم نے دیکھا تھا اس کے چہرے کو تھے کہیں کرب کے کوئی آثار تم اسے موت کہہ رہے تھے مگر خواب راحت میں وہ
کہ در گفتن نمی آید
مری جاں گو تجھے دل سے بھلایا جا نہیں سکتا مگر یہ بات میں اپنی زباں پر لا نہیں سکتا تجھے اپنا بنانا موجب راحت
نظم
دیر ویراں ہے حرم ہے بے خروش برہمن چپ ہے مؤذن ہے خموش سوز ہے اشلوک میں باقی نہ ساز اب وہ خطبے میں نہ
صبح کاذب
یہ جو اک نور کی ہلکی سی کرن پھوٹی ہے کون کہتا ہے اسے صبح درخشاں اے دوست مجھ کو احساس ہے باقی ہے شب
نظم
حقیر و ناتواں تنکا ہوا کے دوش پر پراں سمجھتا تھا کہ بحر و بر پہ میری حکمرانی ہے مگر جھونکا ہوا کا ایک البیلا
ایک نظم
بظاہر اجنبی ہو تم مگر بوسوں کی بے کیفی بتاتی ہے کہ یہ وہ زہر ہے چکھا ہے جس کو بارہا میں نے نہ جانے
طلوع شب
نہ فلک پر کوئی تارا نہ زمیں پر جگنو جو کرن نور کی ہے مات ہوئی جاتی ہے کارگر یورش ظلمات ہوئی ہے کتنی کیا
نظم
افق ہے نام دوری کا افق کے اس طرف کچھ بھی نہیں ہے لوگ کہتے ہیں مگر یہ لوگ وہ ہیں جو مرے خوابوں کی
ایک نظم
وہ اک آوارہ و مجنوں وہ اک شاعر جسے اپنی شرافت کے تحفظ میں کیا تھا قتل اک مدت ہوئی میں نے وہی آوارہ و
Sher
عشق فانی نہ حسن فانی ہے
عشق فانی نہ حسن فانی ہے ان کا ہر لمحہ جاودانی ہے گوپال متل
اپنے انجام سے ڈرتا ہوں میں
اپنے انجام سے ڈرتا ہوں میں دل دھڑکتا ہے کہ سچا ہوں میں گوپال متل
مجھ پہ تو مہربان ہے پیارے
مجھ پہ تو مہربان ہے پیارے یہ بھی اک امتحان ہے پیارے گوپال متل
ایک ہی گھونٹ سہی آج تو پی لے زاہد
ایک ہی گھونٹ سہی آج تو پی لے زاہد کچھ نہ کچھ زہد کی خشکی کو سمویا جائے گوپال متل
مجھے زندگی کی دعا دینے والے
مجھے زندگی کی دعا دینے والے ہنسی آ رہی ہے تری سادگی پر گوپال متل
فطرت میں آدمی کی ہے مبہم سا ایک خوف
فطرت میں آدمی کی ہے مبہم سا ایک خوف اس خوف کا کسی نے خدا نام رکھ دیا گوپال متل
ترک تعلقات خود اپنا قصور تھا
ترک تعلقات خود اپنا قصور تھا اب کیا گلہ کہ ان کو ہماری خبر نہیں گوپال متل
میرا ساقی ہے بڑا دریا دل
میرا ساقی ہے بڑا دریا دل پھر بھی پیاسا ہوں کہ صحرا ہوں میں گوپال متل
فرق یہ ہے نطق کے سانچے میں ڈھل سکتا نہیں
فرق یہ ہے نطق کے سانچے میں ڈھل سکتا نہیں ورنہ جو آنسو ہے در شاہوار نغمہ ہے گوپال متل
کیا کیجئے کشش ہے کچھ ایسی گناہ میں
کیا کیجئے کشش ہے کچھ ایسی گناہ میں میں ورنہ یوں فریب میں آتا بہار کے گوپال متل
خدا گواہ کہ دونوں ہیں دشمن پرواز
خدا گواہ کہ دونوں ہیں دشمن پرواز غم قفس ہو کہ راحت ہو آشیانے کی گوپال متل
اب شکوۂ سنگ و خشت کیسا
اب شکوۂ سنگ و خشت کیسا جب تیری گلی میں آ گیا ہوں گوپال متل
Qisse
ایک انکم ٹکس کمشنر کا غزلیں سنانا
کرشن موہن جن دنوں کمشنر آف انکم ٹکس تھے تو ان کے اعزاز میں ایک دعوت ہوئی، اس میں گوپال متل بھی مدعو تھے۔ کرشن
قوم کا زوال اور متل کی خفگی
خلیق انجم اور ایم۔ اسلم ایک دو دوستوں کے ساتھ گوپال متل سے ملنے گئے تھے۔ گوپال متل سیخ پا ہورہے تھے اورمسلمانوں کو گالیاں
شاعر یا درزی
گوپال متل سے کسی نے دریافت کیا کیوں صاحب! آپ نے اپنی فلاں نظم کانگریسیوں کے لئے لکھی تھی یا کمیونسٹوں کے لئے؟ متل نے