Josh Malihabadi
- 5 December 1898 – 22 February 1982
- Malihabad, India
Introduction
Ghazal
میری حالت دیکھیے اور ان کی صورت دیکھیے
میری حالت دیکھیے اور ان کی صورت دیکھیے پھر نگاہ غور سے قانون قدرت دیکھیے سیر مہتاب و کواکب سے تبسم تابکے رو رہی ہے
سوز غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
سوز غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا جا تجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا
قدم انساں کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے
قدم انساں کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے نظر ہو خواہ کتنی
جب سے مرنے کی جی میں ٹھانی ہے
جب سے مرنے کی جی میں ٹھانی ہے کس قدر ہم کو شادمانی ہے شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے یہ مرا فن خاندانی ہے
وہ صبر دے کہ نہ دے جس نے بیقرار کیا
وہ صبر دے کہ نہ دے جس نے بیقرار کیا بس اب تمہیں پہ چلو ہم نے انحصار کیا تمہارا ذکر نہیں ہے تمہارا نام
بے ہوشیوں نے اور خبردار کر دیا
بے ہوشیوں نے اور خبردار کر دیا سوئی جو عقل روح نے بیدار کر دیا اللہ رے حسن دوست کی آئینہ داریاں اہل نظر کو
یہ بات یہ تبسم یہ ناز یہ نگاہیں
یہ بات یہ تبسم یہ ناز یہ نگاہیں آخر تمہیں بتاؤ کیونکر نہ تم کو چاہیں اب سر اٹھا کے میں نے شکوؤں سے ہات
اس بات کی نہیں ہے کوئی انتہا نہ پوچھ
اس بات کی نہیں ہے کوئی انتہا نہ پوچھ اے مدعائے خلق مرا مدعا نہ پوچھ کیا کہہ کے پھول بنتی ہیں کلیاں گلاب کی
ساری دنیا ہے ایک پردہ راز
ساری دنیا ہے ایک پردہ راز اف رے تیرے حجاب کے انداز موت کو اہل دل سمجھتے ہیں زندگانی عشق کا آغاز مر کے پایا
پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم
پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم پردے پھر آسماں کے اٹھائے ہوئے ہیں ہم چھائی ہوئی ہے عشق کی پھر دل
ادھر مذہب ادھر انساں کی فطرت کا تقاضا ہے
ادھر مذہب ادھر انساں کی فطرت کا تقاضا ہے وہ دامان مہ کنعاں ہے یہ دست زلیخا ہے ادھر تیری مشیت ہے ادھر حکمت رسولوں
ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روز حساب تیرا
ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روز حساب تیرا پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا یہی تو
Nazm
وطن
اے وطن پاک وطن روح روان احرار اے کہ ذروں میں ترے بوئے چمن رنگ بہار اے کہ خوابیدہ تری خاک میں شاہانہ وقار اے
شکست زنداں کا خواب
کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں دیواروں کے نیچے آ
کسان
جھٹپٹے کا نرم رو دریا شفق کا اضطراب کھیتیاں میدان خاموشی غروب آفتاب دشت کے کام و دہن کو دن کی تلخی سے فراغ دور
البیلی صبح
نظر جھکائے عروس فطرت جبیں سے زلفیں ہٹا رہی ہے سحر کا تارا ہے زلزلے میں افق کی لو تھرتھرا رہی ہے روش روش نغمہ
اپنی ملکہ سخن سے
اے شمع جوشؔ و مشعل ایوان آرزو اے مہر ناز و ماہ شبستان آرزو اے جان درد مندی و ایمان آرزو اے شمع طور و
ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب
کس زباں سے کہہ رہے ہو آج تم سوداگرو دہر میں انسانیت کے نام کو اونچا کرو جس کو سب کہتے ہیں ہٹلر بھیڑیا ہے
خاتون مشرق
غنچہ دل مرد کا روز ازل جب کھل چکا جس قدر تقدیر میں لکھا ہوا تھا مل چکا دفعتاً گونجی صدا پھر عالم انوار میں
بدلی کا چاند
خورشید وہ دیکھو ڈوب گیا ظلمت کا نشاں لہرانے لگا مہتاب وہ ہلکے بادل سے چاندی کے ورق برسانے لگا وہ سانولے پن پر میداں
رشوت
لوگ ہم سے روز کہتے ہیں یہ عادت چھوڑیئے یہ تجارت ہے خلاف آدمیت چھوڑیئے اس سے بد تر لت نہیں ہے کوئی یہ لت
کیا گل بدنی ہے
کس درجہ فسوں کار وہ اللہ غنی ہے کیا موجۂ تابندگی و سیم تنی ہے انداز ہے یا جذبۂ گردوں زدنی ہے آواز ہے یا
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے خطاب
اے علی گڑھ اے جواں قسمت دبستان کہن عقل کے فانوس سے روشن ہے تیری انجمن حشر کے دن تک پھلا پھولا رہے تیرا چمن
بیتے ہوئے دن
کیا حال کہیں اس موسم کا جب جنس جوانی سستی تھی جس پھول کو چومو کھلتا تھا جس شے کو دیکھو ہنستی تھی جینا سچا
Sher
مرے رونے کا جس میں قصہ ہے
مرے رُونے کا جس میں قصہ ہے .عُمر کا بہترین حصہ ہے جوش ملیح آبادی
حد ہے اپنی طرف نہیں میں بھی
حد ہے اپنی طرف نہیں میں بِھی .اُور اُن کی طرف خُدائی ہے جوش ملیح آبادی
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
دِل کی چوٹوں نے کِبھی چین سے رہنے نہ دیا .جب چلِی سَرد ہوا میں نے تّجھے یاد کیا جوش ملیح آبادی
تبسم کی سزا کتنی کڑی ہے
تبسم کی سزا کتنی کڑی ہے .گلوں کو کھل کہ مرجھانا پڑا ہے جوش ملیح آبادی
اب سر اٹھا کہ میں نے شکووں سے ہات اٹھایا
اب سر اُٹھا کہ میں نے شکووں سے ہات اٹھایا .مر جاؤں گا ستم گر نیچی نہ کر نگاہیں جوش ملیح آبادی
یہ بات یہ تبسم یہ ناز یہ نگاہیں
یہ بات یہ تبسم یہ ناز یہ نگاہیں .آخر تمہیں بتاو کیونکر نہ تُم کو چاہیں جوش ملیح آبادی
میری حالت دیکھیے اور ان کی صورت دیکھیے
میری حالت دیکھیے اُور اُن کی صورت دیکھیے .پھر نگاہ غُور سے قانون قدرت دیکھیے جوش ملیح آبادی
کشتی مے کو حکم روانی بھی بھیج دو
کشتی مے کو حکم روانی بھی بھیج دُو .جب آگ بھیج دی ہے تُو پانی بھی بھیج دُو جوش ملیح آبادی
انسان کہ لہو کو پیو اذن عام ہے
انِسان کہ لہو کو پیو اِذن عام ہے .انگور کی شراب کا پینا حرام ہے جوش ملیح آبادی
وہاں سے ہے میری ہمت کی ابتدا واللہ
وہاں سے ہے میری ہمت کی ابتدا واللہ .جُو انتہا ہے تیرے صبر آزمانے کی جوش ملیح آبادی
اس نے وعدہ کیا ہے آنے کا
اُس نے وعدہ کیا ہے آنے کا .رَنگ دیکھو غریب خانے کا جوش ملیح آبادی
اس دل میں تیرے حسن کی وہ جلوہ گری ہے
اس دِل میں تیرے حُسن کی وُہ جلوہ گری ہے .جُو دیکھے ہے کہتا ہے کے شیشے میں پری ہے جوش ملیح آبادی
Rubai
خود سے نہ اداس ہوں نہ مسرور ہوں میں
خود سے نہ اداس ہوں نہ مسرور ہوں میں بالذات نہ روشن ہوں نہ بے نور ہوں میں مختار سے مختار ہے مختار ہے تو
افسوس شراب پی رہا ہوں تنہا
افسوس شراب پی رہا ہوں تنہا غلطاں بہ سبو تمام خون فن ہا ٹھٹھری ہوئی ساغر میں نظر آتی ہے صہبا رضی اللہ تعالیٰ عنہا
غنچے تیری زندگی پہ دل ہلتا ہے
غنچے تیری زندگی پے دل ہلتا ہے صرف ایک تبسم کے لیے کھلتا ہے غنچے نے کہا کہ اس چمن میں بابا یے ایک تبسم
اے مرد خدا نفس کو اپنے پہچان
اے مرد خدا نفس کو اپنے پہچان انسان یقین ہے اور اللہ گمان میری بیعت کے واسطے ہاتھ بڑھا پڑھ کلمۂ لاالہ الا انسان جوش
تھے پہلے کھلونوں کی طلب میں بیتاب
تھے پہلے کھلونوں کی طلب میں بیتاب پھر حسن کے جلووں سے رہے بے خور و خواب اب ہیں زن و فرزند پہ دل سے
ہر علم و یقیں ہے اک گماں اے ساقی
ہر علم و یقیں ہے اک گماں اے ساقی ہر آن ہے اک خواب گراں اے ساقی اپنے کو کہیں رکھ کے میں بھولا ہوں
آزادئ فکر و درس حکمت ہے گناہ
آزادئ فکر و درس حکمت ہے گناہ دانا کے لیے نہیں کوئی جائے پناہ اس اژدر تہذیب کے فرزند رشید یہ مذہب و قانون عیاذاً
دل رسم کے سانچے میں نہ ڈھالا ہم نے
دل رسم کے سانچے میں نہ ڈھالا ہم نے اسلوب سخن نیا نکالا ہم نے ذرات کو چھوڑ کر حریفوں کے لیے خورشید پہ بڑھ
جانے والے قمر کو روکے کوئی
جانے والے قمر کو روکے کوئی ثبت کے پیک سفر کو روکے کوئی تھک کر مرے زانو پہ وہ سویا ہے ابھی روکے روکے سحر
ممنوع شجر سے لطف پیہم لینے
ممنوع شجر سے لطف پیہم لینے عصیاں کی گھنی چھاؤں میں پھر دم لینے مشہور کرو کاشمر آ پہنچا جوشؔ اللہ سے انتقام آدم لینے
باقی نہیں ایک شعور رکھنے والا
باقی نہیں ایک شعور رکھنے والا صہبائے کہن سال کا چکھنے والا کیا اپنے معانی کا میں رونا روؤں الفاظ نہیں کوئی پرکھنے والا جوش
وہ آئیں تو ہوگی تمناؤں کی عید
وہ آئیں تو ہوگی تمناؤں کی عید مے زہرہ بنی تو روح مستیٔ ناہید ارمان بڑے گلے میں ڈھولک ڈالے تھرکی کولہے پہ ہات رکھ
Marsiya
حسین اور انقلاب
1 ہمراز یہ فسانۂ آہ و فغاں نہ پوچھ دو دن کی زندگی کا غم این و آں نہ پوچھ کیا کیا حیات ارض کی
عظمت انساں
1 اے قلم چوب خضر، حبل متین ارشاد شانۂ گیسوئے خم دار عروس ایجاد قلزم وقت میں تو زمزمۂ باد مراد تیری تاریخ میں بیتی
Qita
مبہم پیام
قلب صحرا میں چھٹپٹے کے وقت دل میں غلطاں ہے ایک طرفہ امنگ مجھ سے کہتا ہے کیا خدا جانے؟ دھان کے کھیت پر شفق
ضبط گریہ
گرا نہ آنکھ سے آنسو فریب قسمت پر سکون جس سے ہو وہ اضطراب پیدا کر مژہ میں روک لے آنسو کہ دل ہو آئینہ
Qisse
بیگم جوش کی ناراضگی
جوش کو شراب پینے کی عادت تھی، لہذا شام ہوتے ہی ان کی بیگم اندر سے پیگ بنا بنا کر بھجواتیں جنہیں وہ چار گھنٹے
پھر کسی اور وقت مولانا
جوش ملیح آبادی ایک بار گرمی کے موسم میں مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات کی غرض سے ان کی کوٹھی پر پہنچے۔ وہاں ملاقاتیوں کا
عدم یہ ہے تو وجود کیا ہے؟
عبدالحمید عدم کو کسی صاحب نے ایک بار جوش سے ملایا۔ ’’آپ عدم ہیں!‘‘ عدم کافی تن و توش کے آدمی تھے جوش نے ان
جوش کا مردانہ، فیض کا زنانہ
یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ فیض احمد فیض کی آواز میں نسوانیت تھی اور جوش ملیح آبادی کی آواز میں کھنک تھی۔ ’’جشن رانی‘‘
رنڈی والا باغ
جوش صاحب پل بنگش کے جس محلہ میں آکر رہے اس کا نام تقسیم وطن کے بعد سے ’’نیا محلہ‘‘ پڑگیا تھا۔ وہاں سکونت اختیار
آٹوگراف بک اور اصطبل
بمبئی کی ایک معروف ادب پرور اور بوڑھی مغنیہ کے یہاں محفل مشاعرہ منعقد ہورہی تھی، جس میں جوش، جگر، حفیظ جالندھری، مجاز اور ساغر
پٹھان کی نظم اور سکھ کی داد
ایک بار ممبئی کے مشاعرے میں جوش ملیح آبادی اپنی تہلکہ مچادینے والی نظم ’’گل بدنی‘‘ سنارہے تھے ،بے پناہ داد مل رہی تھی۔ جب
خواہش دیدار
بمبئی میں جوش صاحب ایک ایسے مکان میں ٹھہرے جس میں اوپر کی منزل پر ایک اداکارہ رہتی تھی۔ مکان کی کچھ ایسی ساخت تھی
منافقت کا اعتراف
کسی مشاعرے میں ایک نو مشق شاعر اپنا غیر موزوں کلام پڑھ رہے تھے۔ اکثر شعراء آداب محفل کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموش تھے۔ لیکن
ہجڑہ اور کوک شاستر
پنڈت ہری چندا اختر صوفی منش ہونے کے باوجود اہل خرابات کی رفاقت کا دم بھرتے تھے۔ ایک رات جوش ملیح آبادی کی قیادت میں
تلخ و شیریں
منموہن تلخ نے جوش ملیح آبادی کو فون کیا اور کہا، ’’میں تلخ بول رہا ہوں۔‘‘ جوش صاحب نے جواب دیا، ’’کیا حرج ہے اگر
بہرے کا چندہ
حفیظ جالندھری شیخ سر عبدالقادر کی صدارت میں انجمن حمایت اسلام کے لئے چندہ جمع کرنے کی غرض سے اپنی نظم سنارہے تھے۔ مرے شیخ