Ghulam Bhik Nairang
- 26 September 1876-16 October 1952
- Daurana, Ambala, British India
Introduction
Ghazal
کس طرح واقف ہوں حال عاشق جاں باز سے
کس طرح واقف ہوں حال عاشق جاں باز سے ان کو فرصت ہی نہیں ہے کاروبار ناز سے میرے درد دل سے گویا آشنا ہیں
کٹ گئی بے مدعا ساری کی ساری زندگی
کٹ گئی بے مدعا ساری کی ساری زندگی زندگی سی زندگی ہے یہ ہماری زندگی کیا ارادوں سے ہے حاصل طاقت و فرصت کہاں ہائے
کہتے ہیں عید ہے آج اپنی بھی عید ہوتی
کہتے ہیں عید ہے آج اپنی بھی عید ہوتی ہم کو اگر میسر جاناں کی دید ہوتی قیمت میں دید رخ کی ہم نقد جاں
پھر وہی ہم ہیں خیال رخ زیبا ہے وہی
پھر وہی ہم ہیں خیال رخ زیبا ہے وہی سر شوریدہ وہی عشق کا سودا ہے وہی دانہ و دام سنبھالا مرے صیاد نے پھر
اک ہجوم غم و کلفت ہے خدا خیر کرے
اک ہجوم غم و کلفت ہے خدا خیر کرے جان پر نت نئی آفت ہے خدا خیر کرے جائے ماندن ہمیں حاصل ہے نہ پائے
کبھی صورت جو مجھے آ کے دکھا جاتے ہو
کبھی صورت جو مجھے آ کے دکھا جاتے ہو دن مری زیست کے کچھ اور بڑھا جاتے ہو اک جھلک تم جو لب بام دکھا
مرے پہلو سے جو نکلے وہ مری جاں ہو کر
مرے پہلو سے جو نکلے وہ مری جاں ہو کر رہ گیا شوق دل زار میں ارماں ہو کر زیست دو روزہ ہے ہنس کھیل
Nazm
مقصود الفت
کیا مرے حسن دل آویز پہ تو مرتا ہے شعلہ روئی پہ مری جان فدا کرتا ہے یہ اگر سچ ہے تو جا مجھ سے
انسان کی فریاد
ہاں اے مصاف ہستی مت پوچھ مجھ سے کیا ہوں اک عرصۂ بلا ہوں اک لقمۂ فنا ہوں مجبوریوں نے ڈالا گردن میں میری پھندا
Sher
درد الفت کا نہ ہو تو زندگی کا کیا مزا
درد الفت کا نہ ہو تو زندگی کا کیا مزا آہ و زاری زندگی ہے بے قراری زندگی غلام بھیک نیرنگ
کہتے ہیں عید ہے آج اپنی بھی عید ہوتی
کہتے ہیں عید ہے آج اپنی بھی عید ہوتی ہم کو اگر میسر جاناں کی دید ہوتی غلام بھیک نیرنگ
میرے پہلو میں تم آؤ یہ کہاں میرے نصیب
میرے پہلو میں تم آؤ یہ کہاں میرے نصیب یہ بھی کیا کم ہے تصور میں تو آ جاتے ہو غلام بھیک نیرنگ
محو دید چمن شوق ہے پھر دیدۂ شوق
محو دید چمن شوق ہے پھر دیدۂ شوق گل شاداب وہی بلبل شیدا ہے وہی غلام بھیک نیرنگ
آہ کل تک وہ نوازش آج اتنی بے رخی
آہ کل تک وہ نوازش آج اتنی بے رخی کچھ تو نسبت چاہئے انجام کو آغاز سے غلام بھیک نیرنگ
ناز نے پھر کیا آغاز وہ انداز نیاز
ناز نے پھر کیا آغاز وہ انداز نیاز حسن جاں سوز کو پھر سوز کا دعویٰ ہے وہی غلام بھیک نیرنگ
دانہ و دام سنبھالا مرے صیاد نے پھر
دانہ و دام سنبھالا مرے صیاد نے پھر اپنی گردن ہے وہی عشق کا پھندا ہے وہی غلام بھیک نیرنگ
دل گئے ایماں گئے عقلیں گئیں جانیں گئیں
دل گئے ایماں گئے عقلیں گئیں جانیں گئیں تم نے کیا کیا کر دکھایا اک نگاہ ناز سے غلام بھیک نیرنگ
کٹ گئی بے مدعا ساری کی ساری زندگی
کٹ گئی بے مدعا ساری کی ساری زندگی زندگی سی زندگی ہے یہ ہماری زندگی غلام بھیک نیرنگ
کبھی صورت جو مجھے آ کے دکھا جاتے ہو
کبھی صورت جو مجھے آ کے دکھا جاتے ہو دن مری زیست کے کچھ اور بڑھا جاتے ہو غلام بھیک نیرنگ
پھر وہی ہم ہیں خیال رخ زیبا ہے وہی
پھر وہی ہم ہیں خیال رخ زیبا ہے وہی سر شوریدہ وہی عشق کا سودا ہے وہی غلام بھیک نیرنگ
مرے پہلو سے جو نکلے وہ مری جاں ہو کر
مرے پہلو سے جو نکلے وہ مری جاں ہو کر رہ گیا شوق دل زار میں ارماں ہو کر غلام بھیک نیرنگ