Mohammad Ibrahim Zauq
- 22 August 1790-November 1854
- Dehli, India
Introduction
شیخ محمد ابراہیم ذوق ( 1790 – 1854 ) ایک اردو شاعر اور مذہب کے فلسفی تھے۔ انہوں نے “ذوق” کے نام سے شاعری لکھی، اور 19 سال کی عمر میں دہلی میں مغل دربار کے شاعر نامزد ہوئے۔ بعد میں انہیں آخری مغل شہنشاہ بہادور شاہ ظفر نے خاکانی – ہینڈ ( ہندوستان کا خانی ) کا خطاب دیا۔ وہ ایک غریب بچہ تھا، جس میں صرف عام تعلیم تھی، جو اپنے بعد کے سالوں میں تاریخ ، مذہب اور شاعری میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھ گیا تھا۔ ذوق غالب کے مقبول حریف تھے اور اردو شاعری کے ریکارڈ میں، دونوں شاعروں کے مابین دشمنی کافی مشہور ہے۔ ان کی زندگی کے دوران ذوق ان دنوں میں اہم خصوصیات کی وجہ سے غالب سے زیادہ مشہور تھے۔ اس وقت میں شاعری بنیادی طور پر الفاظ، جملے اور تاثرات کے استعمال پر مبنی شاعری کے ٹکڑے کو سمجھنے تک ہی محدود تھی۔ شاعری سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مواد اور تکنیک کو زیادہ مدنظر نہیں رکھا جاتا تھا۔ اردو شاعری میں ذوق کی اہمیت ان کی قصیدوں کی وجہ سے ہے جو زبان پر اپنی گرفت اور بہت مشکل میٹر میں شاعری لکھنے میں ان کی مہارت کا اظہار کرتی ہے۔ چونکہ وہ اپنی نوعمری سے ہی شاہی دربار سے منسلک ہوئے تھے اور اپنی موت تک وہاں ہی رہے تھے، لہذا انہیں شہزادوں اور بادشاہوں سے انعامات لینے کے لئے زیادہ تر قصیدے لکھنا پڑے۔ ان کے استاد شاہ ناصر بھی صرف لسانی زبان اور ممکنہ صلاحیتوں میں دلچسپی ظاہر کرتے تھے۔ ذوق نے اپنے سرپرست کی مثالیں بھی نقل کیں۔ شاعری کا ایسا انداز قصیدے کی تحریر کے مطابق ہے۔ بہت سارے تنقید نگار انہیں سودہ کے ہم پلہ مصنف سمجھتے ہیں۔ ان کی غزلوں کو بھی کچھ ادبی اہمیت حاصل ہے۔ چونکہ بہادور شاہ ظفر کو آسان اور غیر رسمی زبان استعمال کرنے کا شوق تھا، لہذا ذوق نے بھی عام ثقافت سے متاثر سادہ الفاظ، روزمرہ کے استعمال کے الفاظ اور نقل استعمال کرتے ہوئے اپنی غزلیں لکھیں. ان کی غزل بھی ان کی بے خودی کے لئے اہم ہیں۔ ذوق ایک مذہبی آدمی تھے۔ اپنے غزلوں میں بھی وہ مذہبی اور اخلاقی موضوعات شامل کرتے تھے۔ لہذا، ان کی غزلوں میں گیت پسندی کا فقدان ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ مبلغ کی شاعری ہے۔ ذوق کا انتقال 1854 میں ہوا، اور ان کی قبر دہلی کے شہر پہاڑ گنج میں واقع ہے۔ 2000 کی دہائی کے اوائل میں سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد ان کی قبر کو دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا، لیکن قریبی علاقے میں ان کا گھر آج بھی نامعلوم ہے۔
Ghazal
اب تُو گھبرا کہ یہ کہتے ہیں کے مر جائیں گے
اب تُو گھبرا کہ یہ کہتے ہیں کے مر جائیں گے مر کہ بھی چین نہ پایا تُو کدھر جائیں گے تم نے ٹھہرائی اگر
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے اپنی خُوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے ہو عمر خضر بھی تُو ہو معلوم وقت مرگ ہم
مار کر تیر جُو وُہ دلبر جانی مانگے
مار کر تیر جُو وُہ دلبر جانی مانگے کہہ دُو ہم سے نہ کوئی دے کہ نشانی مانگے اے صنم دیکھ کہ ہر دم کی
وُہ کون ہے جُو مُجھ پہ تأسف نہیں کرتا
وُہ کون ہے جُو مُجھ پہ تأسف نہیں کرتا پر مرا جگر دیکھ کے میں اف نہیں کرتا کیا قہر ہے وقفہ ہے ابھی آنے
سب کو دنیا کی ہوس خوار لیے پھرتی ہے
سب کو دنیا کی ہوس خوار لیے پھرتی ہے کون پھرتا ہے یہ مردار لیے پھرتی ہے گھر سے باہر نہ نکلتا کبھی اپنے خورشید
وقت پیری شباب کی باتیں
وقت پیری شباب کی باتیں اِیسی ہیں جیسے خواب کی باتیں پھر مُجھے لے چلا ادھر دیکھو دِل خانہ خراب کی باتیں واعظا چھوڑ ذکر
کسی بیکس کو اے بیداد گر مارا تُو کیا مارا
کسی بیکس کو اے بیداد گر مارا تُو کیا مارا جُو آپ ہی مر رہا ہو اس کو گر مارا تُو کیا مارا نہ مارا
مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے
مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے نہ دوا یاد رہے اُور نہ دعا یاد رہے تم جسے یاد کرو پھر اسے کیا یاد
دریائے اشک چشم سے جس آن بہہ گیا
دریائے اشک چشم سے جس آن بہہ گیا سن لیجیو کے عرش کا ایوان بہہ گیا بل بے گداز عشق کے خوں ہو کہ دِل
جب چلا وُہ مُجھ کو بسمل خوں میں غلطاں چھوڑ کر
جب چلا وُہ مُجھ کو بسمل خوں میں غلطاں چھوڑ کر کیا ہی پچھتاتا تھا میں قاتِل کا داماں چھوڑ کر میں وُہ مجنُوں ہوں
آتے ہی تُو نے گھر کہ پھر جانے کی سنائی
آتے ہی تُو نے گھر کہ پھر جانے کی سنائی رہ جاؤں سن نہ کیونکر یہ تُو بری سنائی مجنُوں و کوہ کن کہ سنتے
مزہ تھا ہم کو جُو لیلیٰ سے دو بہ دو کرتے
مزہ تھا ہم کو جُو لیلیٰ سے دو بہ دو کرتے کے گُل تمہاری بہاروں میں آرزو کرتے مزے جُو مُوت کہ عاشق بیاں کبھو
Sher
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ
تم بھول کر بھی یاد نہیں کرتے ہو کبھی
تم بھول کر بھی یاد نہیں کرتے ہو کبھی ہم تو تمہاری یاد میں سب کچھ بھلا چکے شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ
مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے
مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے نہ دوا یاد رہے اور نہ دعا یاد رہے شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ
زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ
ذوقؔ جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں ملا
ذوقؔ جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں ملا ان کو مے خانے میں لے آؤ سنور جائیں گے شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ
خالی اے چارہ گرو ہوں گے بہت مرہم داں
خالی اے چارہ گرو ہوں گے بہت مرہم داں پر مرے زخم نہیں ایسے کہ بھر جائیں گے شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ
ایک آنسو نے ڈبویا مجھ کو ان کی بزم میں
ایک آنسو نے ڈبویا مجھ کو ان کی بزم میں بوند بھر پانی سے ساری آبرو پانی ہوئی شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ
اے ذوقؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسر
اے ذوقؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسر آرام میں ہے وہ جو تکلف نہیں کرتا شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ
کتنے مفلس ہو گئے کتنے تونگر ہو گئے
کتنے مفلس ہو گئے کتنے تونگر ہو گئے خاک میں جب مل گئے دونوں برابر ہو گئے شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ
اے ذوقؔ دیکھ دختر رز کو نہ منہ لگا
اے ذوقؔ دیکھ دختر رز کو نہ منہ لگا چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ
ہم رونے پہ آ جائیں تو دریا ہی بہا دیں
ہم رونے پہ آ جائیں تو دریا ہی بہا دیں شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ
Qita
جن کو اس وقت میں اسلام کا دعویٰ ہے کمال
جن کو اس وقت میں اسلام کا دعویٰ ہے کمال غور سے دیکھو تو اے ذوقؔ ہے ان کا یہ حال جس طرح سے کہ
نذر دیں نفس کش کو دنیا دار
نذر دیں نفس کش کو دنیا دار واہ کیا تیری کارسازی ہے سچ کہا ہے کسی نے یہ اے ذوقؔ مال موذی نصیب غازی ہے
تو بھلا ہے تو برا ہو نہیں سکتا اے ذوق
تو بھلا ہے تو برا ہو نہیں سکتا اے ذوقؔ ہے برا وہ ہی کہ جو تجھ کو برا جانتا ہے اور اگر تو ہی
دنیا سے ذوق رشتۂ الفت کو توڑ دے
دنیا سے ذوقؔ رشتۂ الفت کو توڑ دے جس سر کا ہے یہ بال اسی سر میں جوڑ دے پر ذوقؔ تو نہ چھوڑے گا