Ehsan Danish
- 2 February 1914-22 March 1982
- Kandhla, British India
Introduction
احسان الحق کو ان کے قلمی نام احسان دانش کے نام سے بھی جانا جاتا ہے. وہ ایک پاکستانی اردو شاعر، نثر نگار، ماہر لسانیات، لغت نگار اور اسکالر تھے. وہ 2 فروری 1914 کو ہندوستان کے شہر اترپردیش کے شملی ضلع کا ایک چھوٹے سے قصبہ مولانا کندہلا میں پیدا ہوئے تھے اور 22 مارچ 1982 کو انکا انتقال ہوگیا تھا. وہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے تھا اور مالی وجوہات کی بنا پر اپنی تعلیم جاری رکھنے سے قاصر تھے. انہوں نے اپنی مدد آپ کے تہت خود ہی فارسی اور عربی زبان سیکھی. دانش علی اس کے والد تھے. وہ لاہور چلا گئے اور مستقل طور پر وہاں رہائش اختیار کر لی. انہوں نے معاش زندگی کے لئے بہت کوشش کی. وہاں انہوں نے کئی سال مختلف ملازمتوں میں مزدور کی حیثیت سے کام کیا اور آخر کار وہ ایک اعلی معیار کے شاعر بن گئے.
احسان دانش نے لسانیات، نثر، شاعری، سوانح عمری، اور لغت نگاری سے متعلق 100 سے زیادہ کتابیں لکھی تھیں. اپنے کیریئر کے آغاز میں، انہوں نے رومانٹک شاعری لکھی لیکن بعد میں انہوں نے مزدوروں کے لئے اپنی شاعری مرتب کی اور اپنے قارئین کے ذریعے “شاعر ای مزدور” ( مزدوروں کا شاعر ) کے نام سے مشہور ہوئے. ان کی نظم نے عام آدمی کے جذبات کو متاثر کیا اور انہیں جوش ملیخ آبادی کا ہم عصر سمجھا جاتا ہے. وہ اب تک کے بہترین مصنفین میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں، جس میں بہترین رومانٹک، اور انقلابی، لیکن فطری شاعری کا انداز ہے. جہان-ای-دانش نامی ان کی سوانح حیات 1973 میں شائع ہوئی تھی اور انہیں “آدم جی” ایوارڈ ملا تھا. ان کی سوانح عمری اردو ادب میں ایک شاہکار ہے اور اس نے بہت سے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی ہے. زبان، الفاظ، حقیقت پسندی، سچائی اور ادب کے انوکھے کلاسیکل استعمال نے اس سوانح حیات کو اردو سوانح حیات میں بلند مقام تک پہنچایا. انہوں نے 80 سے زیادہ کتابیں اور سیکڑوں مضامین لکھے تھے جن میں لسانیات، شاعری، نثر، سوانح حیات، فلسفہ، اور “دیوان-ای-غالب” کا مقبول ترجمہ شامل ہے. ان کا زیادہ تر کام ابھی تک شائع نہیں ہوا ہے. 1978 میں انہیں پاکستان کے صدر سے اسٹار آف ایکسی لینس ملا.
ان کا انتقال 22 مارچ 1982 کو لاہور میں ہوا اور انہیں میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا. انہوں نے مزدور کی اہمیت کے بارے میں اپنے ادبی کام کی وجہ سے “شاعر-ای-مزدور” ( مزدوروں کے شاعر ) کا لقب حاصل کیا.
جہان-ای۔دانش ان کی سوانح حیات.
جہاں-ای۔دیگر
تذکیر۔و۔تانیس
ابلاغ۔ای۔دانش
تشریح غالب
آواز سے الفاظ تک
فصل-ای-سلاسل
زنجیر-ای-بہاراں
ابر-ای-نیساں
میراث-ای-مومن
اردو مطرادیفات
درد-ای-زندگی
خدیث-ای-ادب
لغت الاصلاح
نفیر فطرت
دستور اردو
رموز غالب
Ghazal
یہ تو نہیں کہ تم سے محبت نہیں مجھے
یہ تو نہیں کہ تم سے محبت نہیں مجھے اتنا ضرور ہے کہ شکایت نہیں مجھے میں ہوں کہ اشتیاق میں سر تا قدم نظر
توبہ کی نازشوں پہ ستم ڈھا کے پی گیا
توبہ کی نازشوں پہ ستم ڈھا کے پی گیا پی اس نے جب کہا تو میں گھبرا کے پی گیا دل ہی تو ہے اٹھائے
عشق کو تقلید سے آزاد کر
عشق کو تقلید سے آزاد کر دل سے گریہ آنکھ سے فریاد کر باز آ اے بندۂ حسن مجاز یوں نہ اپنی زندگی برباد کر
پرسش غم کا شکریہ کیا تجھے آگہی نہیں
پرسش غم کا شکریہ کیا تجھے آگہی نہیں تیرے بغیر زندگی درد ہے زندگی نہیں دیکھ کے خشک و زرد پھول دل ہے کچھ اس
نہ سیو ہونٹ نہ خوابوں میں صدا دو ہم کو
نہ سیو ہونٹ نہ خوابوں میں صدا دو ہم کو مصلحت کا یہ تقاضا ہے بھلا دو ہم کو جرم سقراط سے ہٹ کر نہ
آج بھڑکی رگ وحشت ترے دیوانوں کی
آج بھڑکی رگ وحشت ترے دیوانوں کی قسمتیں جاگنے والی ہیں بیابانوں کی پھر گھٹاؤں میں ہے نقارۂ وحشت کی صدا ٹولیاں بندھ کے چلیں
کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر
کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر موسم ہے سرد مہر لہو ہے جماؤ پر چوپال
ہم سے الفت جتائی جاتی ہے
ہم سے الفت جتائی جاتی ہے بے قراری بڑھائی جاتی ہے دیکھ کر ان کے لب پہ خندۂ نور نیند سی غم کو آئی جاتی
رعنائی کونین سے بے زار ہمیں تھے
رعنائی کونین سے بے زار ہمیں تھے ہم تھے ترے جلووں کے طلب گار ہمیں تھے ہے فرق طلب گار و پرستار میں اے دوست
عشق کی دنیا میں اک ہنگامہ برپا کر دیا
عشق کی دنیا میں اک ہنگامہ برپا کر دیا اے خیال دوست یہ کیا ہو گیا کیا کر دیا ذرے ذرے نے مرا افسانہ سن
اب کہو کارواں کدھر کو چلے
اب کہو کارواں کدھر کو چلے راستے کھو گئے چراغ جلے آنسوؤں میں نہا گئیں خوشیاں روٹھ کر جب وہ آ لگے ہیں گلے عشق
مل مل کے دوستوں نے وہ دی ہے دغا مجھے
مل مل کے دوستوں نے وہ دی ہے دغا مجھے اب خود پہ بھی نہیں ہے گمان وفا مجھے اف ابتدائے شوق کی معصوم جستجو
Sher
یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ احسان دانش
آج اس نے ہنس کے یوں پوچھا مزاج
آج اس نے ہنس کے یوں پوچھا مزاج عمر بھر کے رنج و غم یاد آ گئے احسان دانش
کس کس کی زباں روکنے جاؤں تری خاطر
کس کس کی زباں روکنے جاؤں تری خاطر کس کس کی تباہی میں ترا ہاتھ نہیں ہے احسان دانش
احسانؔ کون مجھ سے سوا ہے مرا عدو
احسانؔ کون مجھ سے سوا ہے مرا عدو اپنے سوا کسی سے شکایت نہیں مجھے احسان دانش
میں اور دے سکوں نہ ترے غم کو زندگی
میں اور دے سکوں نہ ترے غم کو زندگی ایسی تو زندگی سے محبت نہیں مجھے احسان دانش
جو کچھ گزر رہی ہے غنیمت ہے ہم نشیں
جو کچھ گزر رہی ہے غنیمت ہے ہم نشیں اب زندگی پہ غور کی فرصت نہیں مجھ احسان دانش
زندگی بیت رہی ہے دانشؔ
زندگی بیت رہی ہے دانشؔ ایک بے جرم سزا ہو جیسے احسان دانش
ایسے انجان بنے بیٹھے ہو
ایسے انجان بنے بیٹھے ہو تم کو کچھ بھی نہ پتا ہو جیسے احسان دانش
موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ
موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے احسان دانش
عشق کو شرک کی حد تک نہ بڑھا
عشق کو شرک کی حد تک نہ بڑھا یوں نہ مل ہم سے خدا ہو جیسے احسان دانش
تم سادہ مزاجی سے مٹے پھرتے ہو جس پر
تم سادہ مزاجی سے مٹے پھرتے ہو جس پر وہ شخص تو دنیا میں کسی کا بھی نہیں ہے احسان دانش
جو دے رہے ہو زمیں کو وہی زمیں دے گی
جو دے رہے ہو زمیں کو وہی زمیں دے گی ببول بوئے تو کیسے گلاب نکلے گا احسان دانش
Qita
جب کسی کی یاد آ کر تلملا جاتا ہے دل
جب کسی کی یاد آ کر تلملا جاتا ہے دل جگمگا اٹھتی ہے کچھ اس شان سے بزم دماغ جیسے ساون کی برستی رات میں
مفلسی اور اس میں گھر پر ہم نشینوں کا ہجوم
مفلسی اور اس میں گھر پر ہم نشینوں کا ہجوم تیرگی میں یاس کی دھندلا گیا حسن امید اس طرح ہے دل پہ اک افسردگی
اس طرح آتے ہیں انجام محبت کے خیال
اس طرح آتے ہیں انجام محبت کے خیال عشرتوں میں دل کی پیغام الم دیتے ہوئے جیسے کھیتوں کے کناروں پر اترتی دھوپ میں سرنگوں
رو رہا تھا گود میں اماں کی اک طفل حسیں
رو رہا تھا گود میں اماں کی اک طفل حسیں اس طرح پلکوں پہ آنسو ہو رہے تھے بے قرار جیسے دیوالی کی شب ہلکی
دوپہر ہونے کو ہے سنا گیا جنگل تمام
دوپہر ہونے کو ہے سنا گیا جنگل تمام اک کرن شاخوں سے چھن کر آ رہی ہے پھول پر جس طرح اک گاؤں کی دوشیزۂ
رات ہے برسات ہے مسجد میں روشن ہے چراغ
رات ہے برسات ہے مسجد میں روشن ہے چراغ پڑ رہی ہے روشنی بھیگی ہوئی دیوار پر جیسے اک بیوہ کے آنسو ڈوبتے سورج کے
یاس میں بیداریٔ احساس کا عالم نہ پوچھ
یاس میں بیداریٔ احساس کا عالم نہ پوچھ ٹھیس یوں لگتی ہے دل پہ طعنۂ ہم راز سے جس طرح سردی کی افسردہ اندھیری رات
بیٹھے بیٹھے ان کی محفل یاد آ جاتی ہے جب
بیٹھے بیٹھے ان کی محفل یاد آ جاتی ہے جب دیکھتی ہے یہ سماں تخئیل کی اونچی نگاہ جیسے تھوڑی دیر ننھی بوندیاں پڑنے کے
حوض میں گر پڑا گلاب کا پھول
حوض میں گر پڑا گلاب کا پھول پاس لانے سے دور جاتا ہے جیسے مدت میں ملنے والے کا نام مشکل سے یاد آتا ہے
مفلسی کے وقت اکثر عشرت رفتہ کی یاد
مفلسی کے وقت اکثر عشرت رفتہ کی یاد یوں دکھاتی ہے جھلک آئینۂ ادراک پر دوپہر میں جس طرح دریا سے میداں کی طرف چلتے
آسماں پر ہیں خراماں ابر پاروں کے ہجوم
آسماں پر ہیں خراماں ابر پاروں کے ہجوم اس طرح کھل کھل کے چھپتی ہے جبین آفتاب جس طرح ہمسایوں کی آمد سے ہنگام سحر
پڑھ رہی ہیں رات کی خاموشیاں افسون خواب
پڑھ رہی ہیں رات کی خاموشیاں افسون خواب تھم گیا ہے اک پیانو بجتے بجتے بام پر ہے مگر احساس سے موسیقیت کی چھیڑ چھاڑ
Qisse
احسان دانش کا تعارف
ڈاکٹر تاثیر اور احسان دانش ریل میں اکٹھے سفر کررہے تھے۔ ایک اسٹیشن پر تاثیر کے ایک دوست اسی ڈبے میں داخل ہوئے۔ تاثیرنے ان
مزدور شاعر کا معاوضہ
راولپنڈی کے ایک مشاعرے کے لیے لاہور سے کچھ شعراء کو مدعو کرنے کے لیے منتظمین حضرات احسان دانش سے ملے۔ انہوں نے سوال کیا،
گھوڑا، گھاس اور مفت کا مشاعرہ
احسان دانش سے کسی مشاعرہ کے ممتظ نے التجا کی کہ ہم ایک مشاعرہ کررہے ہیں، اس میں شامل ہوکر ممنون فرمائیے۔ احسان نے پوچھا،