Ibn e Insha
- 15 June 1927-11 January 1978
- Phillaur, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Ibn e Insha was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
انشاؔ ءجی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
شام غم کی سحر نہیں ہوتی
شام غم کی سحر نہیں ہوتی یا ہمیں کو خبر نہیں ہوتی ہم نے سب دکھ جہاں کے دیکھے ہیں بیکلی اس قدر نہیں ہوتی
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا ہم بھی وہیں موجود
ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں
ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں آج یہاں کل اور نگر میں صبح کہاں اور شام کہاں ہم سے بھی پیت
دل عشق میں بے پایاں سودا ہو تو ایسا ہو
دل عشق میں بے پایاں سودا ہو تو ایسا ہو دریا ہو تو ایسا ہو صحرا ہو تو ایسا ہو اک خال سویدا میں پہنائی
اپنے ہم راہ جو آتے ہو ادھر سے پہلے
اپنے ہم راہ جو آتے ہو ادھر سے پہلے دشت پڑتا ہے میاں عشق میں گھر سے پہلے چل دیے اٹھ کے سوئے شہر وفا
کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ کچھ نہ کہو خاموش رہو
کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ کچھ نہ کہو خاموش رہو اے لوگو خاموش رہو ہاں اے لوگو خاموش رہو سچ اچھا پر اس کے
کس کو پار اتارا تم نے کس کو پار اتارو گے
کس کو پار اتارا تم نے کس کو پار اتارو گے ملاحو تم پردیسی کو بیچ بھنور میں مارو گے منہ دیکھے کی میٹھی باتیں
دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دشت طلب کی دھول میاں
دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دشت طلب کی دھول میاں ہم سے عجب ترا درد کا ناطہ دیکھ ہمیں مت بھول میاں اہل وفا سے
اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا
اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا وہ شہر وہ کوچہ وہ مکاں یاد رہے گا وہ ٹیس کہ ابھری تھی ادھر یاد
جانے تو کیا ڈھونڈ رہا ہے بستی میں ویرانے میں
جانے تو کیا ڈھونڈ رہا ہے بستی میں ویرانے میں لیلیٰ تو اے قیس ملے گی دل کے دولت خانے میں جنم جنم کے ساتوں
اور تو کوئی بس نہ چلے گا ہجر کے درد کے ماروں کا
اور تو کوئی بس نہ چلے گا ہجر کے درد کے ماروں کا صبح کا ہونا دوبھر کر دیں رستہ روک ستاروں کا جھوٹے سکوں
Nazm
اک بار کہو تم میری ہو
ہم گھوم چکے بستی بن میں اک آس کی پھانس لیے من میں کوئی ساجن ہو کوئی پیارا ہو کوئی دیپک ہو، کوئی تارا ہو
سب مایا ہے
سب مایا ہے، سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے اس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے جو تم نے کہا ہے، فیضؔ نے
فرض کرو
فرض کرو ہم اہل وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں فرض کرو یہ جی کی بپتا
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں تم انشاؔ جی کا نام نہ لو کیا انشاؔ جی سودائی ہیں ہیں لاکھوں روگ
ایک لڑکا
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا جی مچلتا تھا ایک ایک شے پر جیب خالی تھی کچھ
کل ہم نے سپنا دیکھا ہے
کل ہم نے سپنا دیکھا ہے جو اپنا ہو نہیں سکتا ہے اس شخص کو اپنا دیکھا ہے وہ شخص کہ جس کی خاطر ہم
کیا دھوکہ دینے آؤ گی
ہم بنجارے دل والے ہیں اور پینٹھ میں ڈیرے ڈالے ہیں تم دھوکا دینے والی ہو؟ ہم دھوکا کھانے والے ہیں اس میں تو نہیں
دروازہ کھلا رکھنا
دل درد کی شدت سے خوں گشتہ و سی پارہ اس شہر میں پھرتا ہے اک وحشی و آوارہ شاعر ہے کہ عاشق ہے، جوگی
بلو کا بستہ
چھوٹی سی بلو چھوٹا سا بستہ ٹھونسا ہے جس میں کاغذ کا دستہ لکڑی کا گھوڑا روئی کا بھالو چورن کی شیشی آلو کچالو بلو
چاند کے تمنائی
شہر دل کی گلیوں میں شام سے بھٹکتے ہیں چاند کے تمنائی بے قرار سودائی دل گداز تاریکی جاں گداز تنہائی روح و جاں کو
یہ کون آیا
انشاؔ جی یہ کون آیا کس دیس کا باسی ہے ہونٹوں پہ تبسم ہے آنکھوں میں اداسی ہے خوابوں کے گلستاں کی خوشبوئے دل آرا
پچھلے پہر کے سناٹے میں
پچھلے پہر کے سناٹے میں کس کی سسکی کس کا نالہ کمرے کی خاموش فضا میں در آیا ہے زور ہوا کا ٹوٹ چکا ہے
Sher
انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
انشاؔ ءجی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
رات آ کر گزر بھی جاتی ہے اک ہماری سحر نہیں ہوتی ابن انشاء
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا ابن انشاء
حسن سب کو خدا نہیں دیتا
حسن سب کو خدا نہیں دیتا ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی ابن انشاء
ایک دن دیکھنے کو آ جاتے
ایک دن دیکھنے کو آ جاتے یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی ابن انشاء
اپنے ہم راہ جو آتے ہو ادھر سے پہلے
اپنے ہم راہ جو آتے ہو ادھر سے پہلے دشت پڑتا ہے میاں عشق میں گھر سے پہلے ابن انشاء
اہل وفا سے ترک تعلق کر لو پر اک بات کہیں
اہل وفا سے ترک تعلق کر لو پر اک بات کہیں کل تم ان کو یاد کرو گے کل تم انہیں پکارو گے ابن انشاء
گرم آنسو اور ٹھنڈی آہیں من میں کیا کیا موسم ہیں
گرم آنسو اور ٹھنڈی آہیں من میں کیا کیا موسم ہیں اس بغیا کے بھید نہ کھولو سیر کرو خاموش رہو ابن انشاء
ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے
ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے تو یاد رہے گا ہمیں ہاں یاد رہے گا ابن انشاء
یوں ہی تو نہیں دشت میں پہنچے یوں ہی تو نہیں جوگ لیا
یوں ہی تو نہیں دشت میں پہنچے یوں ہی تو نہیں جوگ لیا بستی بستی کانٹے دیکھے جنگل جنگل پھول میاں ابن انشاء
اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹیں محفلیں
اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹیں محفلیں ہر شخص تیرا نام لے ہر شخص دیوانا ترا ابن انشاء
کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر
کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر جنگل ترے پربت ترے بستی تری صحرا ترا ابن انشاء
Quote
کسی دانا یا نادان کا مقولہ ہے کہ جھوٹ کے تین درجے ہیں۔ جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعداد و شمار۔ ابن انشاء
دنیا میں یہ بحث ہمیشہ سے چلی آرہی ہے کہ انڈا پہلے یا مرغی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں انڈا۔ کچھ کا کہنا ہے مرغی۔ ایک
ایک زمانہ تھا کہ ہم قطب بنے اپنے گھر میں بیٹھے رہتے تھے اور ہمارا ستارہ گردش میں رہا کرتا تھا۔ پھر خدا کا کرنا
بٹن لگانے سے زیادہ مشکل کام بٹن توڑنا ہے۔ اور یہ ایک طرح سے دھوبیوں کا کاروباری راز ہے۔ ہم نے گھر پر کپڑے دھلواکر
اوسط کا مطلب بھی لوگ غلط سمجھتے ہیں۔ ہم بھی غلط سمجھتے تھے۔ جاپان میں سنا تھا کہ ہر دوسرے آدمی کے پاس کار ہے۔
ایک جنتری خرید لو اور دنیا بھر کی کتابوں سے بے نیاز ہو جاؤ۔ فہرست تعطیلات اس میں، نماز عید اور نماز جنازہ پڑھنے کی
سچ یہ ہے کہ کاہلی میں جو مزہ ہے وہ کاہل ہی جانتے ہیں۔ بھاگ دوڑ کرنے والے اور صبح صبح اٹھنے والے اور ورزش
ہمارے خیال میں اخباروں کے ڈائجسٹ بھی نکلنے چاہئیں کیونکہ کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ بارہ بارہ چودہ چودہ صفحے پڑھے۔ لوگ تو
ایک زمانے میں اخباروں سے صر ف خبروں کا کام لیا جاتا تھا۔ یا پھر لوگ سیاسی رہنمائی کے لیے انہیں پڑھتے تھے۔ آج تو
جب کوئی چیز نایاب یا مہنگی ہوجاتی ہے تو اس کابدل نکل ہی آتا ہے جیسے بھینس کانعم البدل مونگ پھلی۔ آپ کو تو گھی
Tanz-O-Mazakh
کچھ انڈوں کی طرفداری میں
دنیا میں یہ بحث ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے کہ انڈا پہلے یا مرغی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں انڈا۔ کچھ کا کہنا ہے مرغی۔
کچھ اعداد وشمار کے بارے میں
ہمارا حساب ہمیشہ سے کمزور رہا ہے۔ یوں تو اور بھی کئی چیزیں کمزور رہی ہیں۔ مثلاً مالی حالت، ایمان، لیکن ان کے ذکر کا
ایک دعا
یا اللہ کھانے کو روٹی دے پہننے کو کپڑا دے رہنے کو مکان دے عزت اور آسودگی کی زندگی دے میاں یہ بھی کوئی مانگنے
تاریخ کے چند اوراق
تاریخ کے چند دور راہوں میں پتھر جلسوں میں پتھر سینوں میں پتھر عقلوں پر پتھر آستانوں پر پتھر دیوانوں پر پتھر پتھّر ہی پتھر
فیض اور میں
بڑے لوگوں کے دوستوں اور ہم جلیسوں میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اس دوستی اور ہم جلیسی کا اشتہار دے
داخلے جاری ہیں
پرسوں ایک صاحب تشریف لائے ہے رند سے زاہد کی ملاقات پرانی پہلے بریلی کو بانس بھیجا کرتے تھے۔ یہ کاروبار کسی وجہ سے نہ
نجات کا طلب غالب
(چند خطوط) ۱ ’’لو مرزا تفتہ ایک بات لطیفے کی سنو۔ کل ہر کارہ آیا تو تمہارے خط کے ساتھ ایک خط کرانچی بندر سے
جنتری نئے سال کی
آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج۔ یعنی بلبل بولتا تھا یا بولتی تھی تو لوگ جان لیتے تھے کہ بہار آگئی ہے۔
ہم پھر مہمان خصوصی بنے
مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جا سکتا۔ دوسری بار ڈسے جانے کے خواہش مند کو کوئی دوسرا
خطبہ صدارت حضرت ابن انشاء
پچھلے دنوں ایک کتاب چھپی ہے، ’’چلتے ہو تو چین کو چلیے۔‘‘ اس کے فاضل مصنف کا کیا عمدہ قول ہے کہ انسان کی صحیح
ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمٹیڈ
پاکستان ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ ہونہار مصنفین اور یکہ تاز ناشرین کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کا مسرت سے اعلان کرتی ہے۔ کارخانہ ہذا
ہم مہمان خصوصی بنے
آج کل کراچی کے کالجوں اور اسکولوں میں مباحثوں اور یوموں کا موسم ہے۔ سکہ بند مہمان خصوصی کو دن میں دو دو درس گاہیں
Article
من چہ می سرائیم
میں نے چھ سال ہوئے اپنی شاعری کی کتاب چاند نگر کے دیباچے میں اپنی بات کو سہارادینے کے لیے ایک دو نقلیں بیان کی