Jaun Elia
- 14 December 1931 - 8 November 2002
- Karachi, Pakistan
Introduction
Ghazal
اک گمان بے گماں ہے زندگی
اک گمان بے گماں ہے زندگیداستاں کی داستاں ہے زندگی دم بہ دم ہے اک فراق جاوداںاک جبیں بے آستاں ہے زندگی کہکشاں بر کہکشاں
دل ہے سوالی تجھ سے دل آرا اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا
دل ہے سوالی تجھ سے دل آرا، اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گاآس ہے تیری ہی دل دارا، اللہ ہی دے گا مولا
یوں مجھے کب تلک سہو گے تم
یوں مجھے کب تلک سہو گے تمکب تلک مبتلا رہو گے تم درد مندی کی مت سزا پاؤاب تو تم مجھ سے تنگ آجاؤ میں
کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے
کوئی حالت نہیں یہ حالت ہےیہ تو آشوب ناک صورت ہے انجمن میں یہ میری خاموشیبردباری نہیں ہے وحشت ہے تجھ سے یہ گاہ گاہ
تمہاری یاد سے جب ہم گزرنے لگتے ہیں
تمہاری یاد سے جب ہم گزرنے لگتے ہیںجو کوئی کام نہ ہو بس وہ کرنے لگتے ہیں تمہارے آئینۂ ذات کے تصور میںہم اپنے آئینے
اخلاق نہ برتیں گے مداوا نہ کریں گے
اخلاق نہ برتیں گے مداوا نہ کریں گےاب ہم بھی کسی شخص کی پرواہ نہ کریں گے کچھ لوگ کئی لفظ غلط بول رہے ہیںاصلاح
نئی خواہش رچائی جا رہی ہے
نئی خواہش رچائی جا رہی ہےتیری فرقت منائی جا رہی ہے نبھائی تھی نہ ہم نے جانے کس سےکہ اب سب سے نبھائی جا رہی
شوق کی راہ پر اگر چلیے
شوق کی راہ پر اگر چلیےچار جانب سے بے خبر چلیے کوئی تو کارنامہ دیں انجاماس محلے میں نام کر چلیے کوئے جاناں کی ناکہ
ایک سایہ مرا مسیحا تھا
ایک سایہ مرا مسیحا تھاکون جانے وہ کون تھا کیا تھا وہ فقط صحن تک ہی آتی تھیمیں بھی حجرے سے کم نکلتا تھا تجھ
مجھ کو بیگانہ کر گئے مرے دن
مجھ کو بیگانہ کر گئے مرے دنمجھ سے ہو کر گزر گئے مرے دن اب نہ کوئی دن مرے گھر جائے گاجانئے کس کے گھر
مستی حال کبھی تھی کہ نہ تھی بھول گئے
مستی حال کبھی تھی کہ نہ تھی بھول گئےیاد اپنی کوئی حالت نہ رہی بھول گئے یوں مجھے بھیج کے تنہا سر بازار فریبکیا میرے
خون تھوکے گی زندگی کب تک
خون تھوکے گی زندگی کب تکیاد آئے گی اب تری کب تک جانے والوں سے پوچھنا یہ صبارہے آباد دل گلی کب تک ہو کبھی
Nazm
نہیں تو
رفاقت کیا اذیت ہے؟ نہیں تومجھے تم سے محبت ہے؟ نہیں تومجھے کیا خوف فرقت ہے؟ نہیں تویہ غم کیا دل کی عادت ہے؟ نہیں
اک پاگل لڑکی کو بھلا کر اب تو بڑے آرام سے ہو
جون! تمہیں یہ دور مبارک، دور غم ایام سے ہواک پاگل لڑکی کو بھلا کر اب تو بڑے آرام سے ہوایک ادھوری انگڑائی کے مستقبل
شاید
میں شاید تم کو یکسر بھولنے والا ہوںشاید جان جاں شاید کہ اب تم مجھ کو پہلے سے زیادہ یاد آتی ہوہے دل غمگیں بہت
نقش کہن
شانوں پہ کس کہ اشک بہایا کریں گی آپ؟روٹھے گا کون کس کو منایا کریں گی آپ؟وہ جا رہا ہے صبح محبت کا کارواںاب شام
کیا لگا تھا
کیا لگا تھاکہ خود کو مجھ میں نچوڑ دوگےپھر ہم سے پوچھو گے غم ہمارےجب دل بھرے گا تو چھوڑ دو گےبتاؤ! جاناں یہی لگا
سزا
ہر بار میرے سامنے آتی رہی ہو تمہر بار تم سے مل کے بچھڑتا رہا ہوں میںتم کون ہو یہ خود بھی نہیں جانتی ہو
رمز
تم جب آؤگی تو کھویا ہوا پاؤگی مجھےمیری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیںمیرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیںمیرے کمرے میں
درخت زرد
نہیں معلوم زریون اب تمہاری عمر کیا ہوگیوہ کن خوابوں سے جانے آشنا نا آشنا ہوگیتمہارے دل کے اس دنیا سے کیسے سلسلے ہوں گےتمہیں
شاید
میں شاید تم کو یکسر بھولنے والا ہوں شاید جان جاں شاید کہ اب تم مجھ کو پہلے سے زیادہ یاد آتی ہو ہے دل
وہ
وہ کتاب حسن وہ علم و ادب کی طالبہوہ مہذب وہ مودب وہ مقدس راہبہکس قدر پیرایہ پرور اور کتنی سادہ کارکس قدر سنجیدہ و
سفر کے وقت
تمہاری یاد مرے دل کا داغ ہے لیکن سفر کے وقت تو بے طرح یاد آتی ہو برس برس کی ہو عادت کا جب حساب
ہمیشہ قتل ہو جاتا ہوں میں
بساط زندگی تو ہر گھڑی بچھتی ہے اٹھتی ہے یہاں پر جتنے خانے جتنے گھر ہیں سارے خوشیاں اور غم انعام کرتے ہیں یہاں پر
Sher
بے دلی اس قدر ہے کہ آج ہمیں تم سے
بے دلی اس قدر ہے کہ آج ہمیں تم سےکچھ نہیں چاہئیے حتٰی کہ محبت بھی نہیں جون ایلیاء
ہم نے کیے گناہ تو دوزخ ملی ہمیں
ہم نے کیے گناہ تو دوزخ ملی ہمیںدوزخ کا کیا گناہ کے دوزخ کو ہم ملے جون ایلیاء
بس تم تک رسائی چاہتا ہوں
بس تم تک رسائی چاہتا ہوںمیں کب ساری خدائی چاہتا ہوں جون ایلیاء
اب تو اس کے بارے میں تم جو چاہو وہ کہہ ڈالو
اب تو اس کے بارے میں تم جو چاہو وہ کہہ ڈالووہ انگڑائی میرے کمرے تک تو بڑی روحانی تھی جون ایلیاء
آپ نے نام کیا بتایا تھا
آپ نے نام کیا بتایا تھامجھ کو بھول جانے کی عادت ہے جون ایلیاء
عاجزی منت خوشامد التجا
عاجزی منت خوشامد التجااور میں کیا کروں مر جاؤں جون ایلیاء
آدمی کو ہے زمانے سے گلہ
آدمی کو ہے زمانے سے گلہیہ زمانہ تو خدا کا بهی نہیں جون ایلیاء
تیری آنکھیں بھی کیا مصیبت ہیں
تیری آنکھیں بھی کیا مصیبت ہیںمیں کوئی بات کہنے آیا تھا جون ایلیاء
کیا کہا عشق کر بیٹھے
کیا کہا عشق کر بیٹھےانا للہ وانا اليہ راجعون جون ایلیاء
یہ تو بس سر ہی مانگتا ہے میاں
یہ تو بس سر ہی مانگتا ہے میاںعشق پر کربلا کا سایہ ہے جون ایلیاء
قافلہ رہ گیا اک دشت بلا میں پیاسا
قافلہ رہ گیا اک دشت بلا میں پیاساجن کی میراث تھی کوثر انہیں پانی نہ ملا جون ایلیاء
یعنی
یعنی یہ خاموشی بھی کسی کام کی نہیں؟یعنی میں بیان کر کے بتاؤں کے اداس ہوں جون ایلیاء
Marsiya
کربلا کے غم اٹھائے جا رہے ہیں
کربلا کے غم اٹھائے جا رہے ہیںجفا کے تیر کھائے جا رہے ہیں فدا کرنے کو دین مصطفیٰ پرعلی اکبر سجائے جا رہے ہیں قدم
چارہ گر بھی جو یوں گزر جائیں
چارہ گر بھی جو یوں گزر جائیں چارہ گر بھی جو یوں گزر جائیں پھر یہ بیمار کس کے گھر جائیں آج کا غم بڑی
Qita
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مجھ سے
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مجھ سےیقیناً ایک جسارت ہو گئی ہےتمہیں کوئی شکایت تو نہ ہوگ؟مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے جون ایلیاء
مر چکا ہے دل مگر زندہ ہوں میں
مر چکا ہے دل مگر زندہ ہوں میںزہر جیسی کچھ دوائیں چاہییںپوچھتی ہیں آپ، آپ اچھے تو ہیںجی میں اچھا ہوں، دعائیں چاہییں جون ایلیاء
عشق سمجھے تھے جس کو وہ شاید
عشق سمجھے تھے جس کو وہ شایدتھا بس اک نارسائی کا رشتہمیرے اور اس کے درمیاں نکلاعمر بھر کی جدائی کا رشتہ جون ایلیاء
مر جائیں گے
ہم حسین ترین، امیر ترین، ذہین ترین اور زندگی میں ہر حوالے سے بہترین ہونے کے باوجود بالآخر مر ہی جائیں گے۔ رقص ہے رنگ
میں نے ہر بار تجھ سے ملتے وقت
میں نے ہر بار تجھ سے ملتے وقت تجھ سے ملنے کی آرزو کی ہے تیرے جانے کے بعد بھی میں نے تیری خوشبو سے
چارہ سازوں کی چارہ سازی سے
چارہ سازوں کی چارہ سازی سے درد بدنام تو نہیں ہوگا ہاں دوا دو مگر یہ بتلا دو مجھ کو آرام تو نہیں ہوگا جون
ہے محبت حیات کی لذت
ہے محبت حیات کی لذت ورنہ کچھ لذت حیات نہیں کیا اجازت ہے ایک بات کہوں وہ مگر خیر کوئی بات نہیں جون ایلیاء
شرم دہشت جھجھک پریشانی
شرم دہشت جھجھک پریشانیناز سے کام کیوں نہیں لیتیںآپ وہ جی مگر یہ سب کیا ہےتم مرا نام کیوں نہیں لیتیں جون ایلیاء
میری عقل و ہوش کی سب حالتیں
میری عقل و ہوش کی سب حالتیں تم نے سانچے میں جنوں کے ڈھال دیں کر لیا تھا میں نے عہد ترک عشق تم نے
جو حقیقت ہے اس حقیقت سے
جو حقیقت ہے اس حقیقت سے دور مت جاؤ لوٹ بھی آؤ ہو گئیں پھر کسی خیال میں گم تم مری عادتیں نہ اپناؤ جون
ہر طنز کیا جائے ہر اک طعنہ دیا جائے
ہر طنز کیا جائے ہر اک طعنہ دیا جائے کچھ بھی ہو پر اب حد ادب میں نہ رہا جائے تاریخ نے قوموں کو دیا
سال ہا سال اور اک لمحہ
سال ہا سال اور اک لمحہ کوئی بھی تو نہ ان میں بل آیا خود ہی اک در پہ میں نے دستک دی خود ہی