Muhammad Izhar ul Haq
- 14 February 1948
- Attock, Punjab, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
قرطاس و قلم ہاتھ میں ہے اور شب مہ ہے
قرطاس و قلم ہاتھ میں ہے اور شب مہ ہے اے رب ازل کھول دے جو دل میں گرہ ہے اطراف سے ہر شب سمٹ
ترے سامنے تو سمجھ رہا تھا کہ پھول تھا
ترے سامنے تو سمجھ رہا تھا کہ پھول تھا تجھے کیا خبر کہ یہ آئنا تھا کہ پھول تھا ترا پاؤں شام پہ آ گیا
کسی تاریک گوشے میں بسر ہوگی ہماری
کسی تاریک گوشے میں بسر ہوگی ہماری محل میں تجھ کو پل پل کی خبر ہوگی ہماری عجب اک سحر ہوگا جان دینی بے بسی
وجود پر انحصار میں نے نہیں کیا تھا
وجود پر انحصار میں نے نہیں کیا تھا کہ خاک کا اعتبار میں نے نہیں کیا تھا سفید ریشم کی اوڑھنی میرے ہاتھ میں تھی
نجات کے لیے روز سیاہ مانگتی ہے
نجات کے لیے روز سیاہ مانگتی ہے زمین اہل زمیں سے پناہ مانگتی ہے بھرا نہ اطلس و مرمر سے پیٹ خلقت کا یہ بد
کوئی زاری سنی نہیں جاتی کوئی جرم معاف نہیں ہوتا
کوئی زاری سنی نہیں جاتی کوئی جرم معاف نہیں ہوتا اس دھرتی پر اس چھت کے تلے کوئی تیرے خلاف نہیں ہوتا کبھی دمکیں سونے
میں وہم بیچتا ہوں وسوسے بناتا ہوں
میں وہم بیچتا ہوں وسوسے بناتا ہوں ستارے دیکھتا ہوں زائچے بناتا ہوں گراں ہے اتنا تو کیوں وقت ہو مجھے درکار مزے سے بیٹھا
بریدہ گیسوؤں میں آنکھ کا رستہ نہیں تھا
بریدہ گیسوؤں میں آنکھ کا رستہ نہیں تھا وہ چہرہ خوب صورت تھا مگر دیکھا نہیں تھا میں جب ساحل پہ اترا خلق میری منتظر
بس ایک رات مرے گھر میں چاند اترا تھا
بس ایک رات مرے گھر میں چاند اترا تھا پھر اس کے بعد وہی میں وہی اندھیرا تھا صبا کا نرم سا جھونکا تھا یا
سنہری نیند سے کس نے مجھے بیدار کر ڈالا
سنہری نیند سے کس نے مجھے بیدار کر ڈالا دریچہ کھل رہا تھا خواب میں دیوار کر ڈالا نشاں ہونٹوں کا لو دینے لگا ہے
متاع بے بہا آنسو زمیں میں بو دیا تھا
متاع بے بہا آنسو زمیں میں بو دیا تھا پلٹ کر جب ترا گھر میں نے دیکھا رو دیا تھا عصا در دست ہوں اس
ہمارے سر پہ کوئی ہاتھ تھا نہ سایہ تھا
ہمارے سر پہ کوئی ہاتھ تھا نہ سایہ تھا بس آسماں تھا جسے جانے کیوں بنایا تھا کسی سے شام ڈھلے چھن گیا تھا پایۂ
Nazm
نظم
اسے چاہیں تو آہیں دل کی سب راہیں دھوئیں سے تیرہ و تاریک کر ڈالیں نگاہیں یوں کراہیں جیسے تا حد نظر اس کی شعاعیں
قرطبہ میں
بدن پہ کوئی ذرا ہے نہ ہاتھ میں تلوار اور اشک زار میں صدیوں کے اندلس کا سفر اس آسمان کے نیچے کہیں پڑاؤ نہ
ناتواں دوش پر شال
اور اب میری مونچھیں پرانے سوئیٹر کی ادھڑی ہوئی سفید اون پیلے کاغذ میں رکھی سیہ فلم اور تھوک ڈبیا میں بند تیری ماں کے
شب ہجراں
ہوا بے مہر تھی اس رات ٹھنڈی اور کٹیلی سانس لینا سر سے اونچی لہر سے ٹکر لگانا تھا صدا کوئی نہیں تھی سمت کی
نظم
گھنے پیڑ شاخوں پہ بور اور اونچے پہاڑ ہری جھاڑیاں اور سبزے کی موٹی تہیں سڑک کے کناروں پہ کھمبوں کے تار ہوا سے ہلیں
رب نواز مائل
کس لئے اس شے کا اب ماتم کروں کس لئے اس شے کا اب ماتم کروں روز و شب کا حسن جن لوگوں سے تھا
Sher
جلے تو ساتھ جلیں گی یہ جھاڑیاں اظہارؔ
جلے تو ساتھ جلیں گی یہ جھاڑیاں اظہارؔ کسی کے شہر میں تو درد یوں نہ بٹتا تھا محمد اظہار الحق
اطراف سے ہر شب سمٹ آتی ہے سفیدی
اطراف سے ہر شب سمٹ آتی ہے سفیدی ہر صبح جبیں پر مگر اک روز سیہ ہے محمد اظہار الحق
گھرا ہوا ہوں جنم دن سے اس تعاقب میں
گھرا ہوا ہوں جنم دن سے اس تعاقب میں زمین آگے ہے اور آسماں مرے پیچھے محمد اظہار الحق
ترا پاؤں شام پہ آ گیا تھا کہ چاند تھا
ترا پاؤں شام پہ آ گیا تھا کہ چاند تھا ترا ہجر صبح کو جل اٹھا تھا کہ پھول تھا محمد اظہار الحق
اندھیری شام تھی بادل برس نہ پائے تھے
اندھیری شام تھی بادل برس نہ پائے تھے وہ میرے پاس نہ تھا اور میں کھل کے رویا تھا محمد اظہار الحق
کوئی زاری سنی نہیں جاتی کوئی جرم معاف نہیں ہوتا
کوئی زاری سنی نہیں جاتی کوئی جرم معاف نہیں ہوتا اس دھرتی پر اس چھت کے تلے کوئی تیرے خلاف نہیں ہوتا محمد اظہار الحق