Aale Ahmad Suroor
- 09 November 1911 - 09 February 2022
- Badayun, India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
خیال جن کا ہمیں روز و شب ستاتا ہے
خیال جن کا ہمیں روز و شب ستاتا ہے کبھی انہیں بھی ہمارا خیال آتا ہے تمہارا عشق جسے خاک میں ملاتا ہے اسی کی
جس نے کیے ہیں پھول نچھاور کبھی کبھی
جس نے کیے ہیں پھول نچھاور کبھی کبھی آئے ہیں اس کی سمت سے پتھر کبھی کبھی ہم جس کے ہو گئے وہ ہمارا نہ
لوگ تنہائی کا کس درجہ گلا کرتے ہیں
لوگ تنہائی کا کس درجہ گلا کرتے ہیں اور فن کار تو تنہا ہی رہا کرتے ہیں وہ تبسم ہے کہ غالبؔ کی طرح دار
آج سے پہلے ترے مستوں کی یہ خواری نہ تھی
آج سے پہلے ترے مستوں کی یہ خواری نہ تھی مے بڑی افراط سے تھی پھر بھی سرشاری نہ تھی ایک ہم قدروں کی پامالی
وہ احتیاط کے موسم بدل گئے کیسے
وہ احتیاط کے موسم بدل گئے کیسے چراغ دل کے اندھیرے میں جل گئے کیسے بنا دیا تھا زمانے نے برف کے مانند ہم ایک
خدا پرست ملے اور نہ بت پرست ملے
خدا پرست ملے اور نہ بت پرست ملے ملے جو لوگ وہ اپنے نشے میں مست ملے کہیں خود اپنی درستی کا دکھ نہیں دیکھا
کچھ لوگ تغیر سے ابھی کانپ رہے ہیں
کچھ لوگ تغیر سے ابھی کانپ رہے ہیں ہم ساتھ چلے تو ہیں مگر ہانپ رہے ہیں نعروں سے سیاست کی حقیقت نہیں چھپتی عریاں
ہمیں تو مے کدے کا یہ نظام اچھا نہیں لگتا
ہمیں تو مے کدے کا یہ نظام اچھا نہیں لگتا نہ ہو سب کے لیے گردش میں جام اچھا نہیں لگتا کبھی تنہائی کی خواہش
داستان شوق کتنی بار دہرائی گئی
داستان شوق کتنی بار دہرائی گئی سننے والوں میں توجہ کی کمی پائی گئی فکر ہے سہمی ہوئی جذبہ ہے مرجھایا ہوا موج کی شورش
ہمارے ہاتھ میں جب کوئی جام آیا ہے
ہمارے ہاتھ میں جب کوئی جام آیا ہے تو لب پہ کتنے ہی پیاسوں کا نام آیا ہے کہاں کا نور یہاں رات ہو گئی
جب کبھی بات کسی کی بھی بری لگتی ہے
جب کبھی بات کسی کی بھی بری لگتی ہے ایسا لگتا ہے کہ سینے میں چھری لگتی ہے رات بھاری تھی تو تھے اس کے
جبر حالات کا تو نام لیا ہے تم نے
جبر حالات کا تو نام لیا ہے تم نے اپنے سر بھی کبھی الزام لیا ہے تم نے مے کشی کے بھی کچھ آداب برتنا
Nazm
چار فتنے
تین فتنوں کا قصہ پرانا ہوا چار فتنوں کا سنیے ذرا ماجرا ایک لمبے ہیں عالم بھی فاضل بھی ہیں سچ تو یہ ہے کہ
میری بیٹی
میری بیٹی جب بڑی ہو جائے گی سارے گھر میں چاندنی پھیلائے گی ہر نظر میں روشنی آ جائے گی حور جنت سے نچھاور لائے
ٹیپو کی آواز
گو رات کی جبیں سے سیاہی نہ دھل سکی لیکن مرا چراغ برابر جلا کیا جس سے دلوں میں اب بھی حرارت کی ہے نمود
نئی پود
یہ نئی پود الحفیظ و الاماں رعد ہے طوفان ہے آتش فشاں کھیلنے میں جوش پڑھنے میں خروش حرکتوں سے ان کی اڑ جاتے ہیں
چار یار
نمبر ایک بڑا ہی نیک کھائے کیک پئے ملک شیک نمبر دو کہے کو رو منگاؤ کو کو پلاؤ سب کو مجھے بھی دو مجھے
عرفی کی کیا بات
یوں تو بچے اور بھی ہیں لمبے اور چوکور بھی ہیں عرفی کی کیا بات بھائی عرفی کی کیا بات کالے بادل آئیں گے ساتھ
Sher
ہم جس کے ہو گئے وہ ہمارا نہ ہو سکا
ہم جس کے ہو گئے وہ ہمارا نہ ہو سکا یوں بھی ہوا حساب برابر کبھی کبھی آل احمد سرور
ساحل کے سکوں سے کسے انکار ہے لیکن
ساحل کے سکوں سے کسے انکار ہے لیکن طوفان سے لڑنے میں مزا اور ہی کچھ ہے آل احمد سرور
تمہاری مصلحت اچھی کہ اپنا یہ جنوں بہتر
تمہاری مصلحت اچھی کہ اپنا یہ جنوں بہتر سنبھل کر گرنے والو ہم تو گر گر کر سنبھلے ہیں آل احمد سرور
بستیاں کچھ ہوئیں ویران تو ماتم کیسا
بستیاں کچھ ہوئیں ویران تو ماتم کیسا کچھ خرابے بھی تو آباد ہوا کرتے ہیں آل احمد سرور
ہم جس کے ہو گئے وہ ہمارا نہ ہو سکا
ہم جس کے ہو گئے وہ ہمارا نہ ہو سکا یوں بھی ہوا حساب برابر کبھی کبھی آل احمد سرور
آتی ہے دھار ان کے کرم سے شعور میں
آتی ہے دھار ان کے کرم سے شعور میں دشمن ملے ہیں دوست سے بہتر کبھی کبھی آل احمد سرور
حسن کافر تھا ادا قاتل تھی باتیں سحر تھیں
حسن کافر تھا ادا قاتل تھی باتیں سحر تھیں اور تو سب کچھ تھا لیکن رسم دل داری نہ تھی آل احمد سرور
مے کشی کے بھی کچھ آداب برتنا سیکھو
مے کشی کے بھی کچھ آداب برتنا سیکھو ہاتھ میں اپنے اگر جام لیا ہے تم نے آل احمد سرور
ہم تو کہتے تھے زمانہ ہی نہیں جوہر شناس
ہم تو کہتے تھے زمانہ ہی نہیں جوہر شناس غور سے دیکھا تو اپنے میں کمی پائی گئی آل احمد سرور
کچھ تو ہے ویسے ہی رنگیں لب و رخسار کی بات
کچھ تو ہے ویسے ہی رنگیں لب و رخسار کی بات اور کچھ خون جگر ہم بھی ملا دیتے ہیں آل احمد سرور
یہ کیا غضب ہے جو کل تک ستم رسیدہ تھے
یہ کیا غضب ہے جو کل تک ستم رسیدہ تھے ستم گروں میں اب ان کا بھی نام آیا ہے آل احمد سرور
تمام عمر کٹی اس کی جستجو کرتے
تمام عمر کٹی اس کی جستجو کرتے بڑے دنوں میں یہ طرز کلام آیا ہے آل احمد سرور
Quote
غزل ہماری ساری شاعری نہیں ہے، مگر ہماری شاعری کا عطر ضرور ہے۔ آل احمد سرور
ادب انقلاب نہیں لاتا بلکہ انقلاب کے لیے ذہن کو بیدار کرتا ہے۔ آل احمد سرور
کسی ملک کے رہنے والوں کے تخیل کی پرواز کا اندازہ وہاں کی شاعری سے ہوتا ہے مگر اس کی تہذیب کی روح اس کے
دہلی کی شاعری جذبے کی شاعری ہے، وہاں جذبہ خود حسن رکھتا ہے۔ لکھنؤ کی شاعری جذبے کو فن پر قربان کر دیتی ہے۔ آل
شاعری اور ادب کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ وقتی سیاست کے اشاروں پر چلے اور سیاسی تحریکوں کے ہر پیچ و خم کا
ہر ادب میں تجربے ضروری ہیں، مگر تجربوں کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ صرف نئے فارم میں ظاہر ہوں۔ نئے موضوعات، نئے تصورات،
ادب وقتی اور ہنگامی واقعات کو ابدی تناظر میں دیکھنے کا نام ہے۔ ہر لمحے کے ساتھ بدل جانے کا نام نہیں۔ آل احمد سرور
ادیب زندگی سے، اس کی سچائی سے، اس کے حسن سے نہیں کٹا، بلکہ سیاسی اور سماجی حالات کی شکار پبلک اس سے کٹ گئی
تنقیدی شعور تو تخلیقی شعور کے ساتھ ساتھ چلتا ہے مگر تنقیدی کارنامے ہر دور میں تخلیقی کارناموں کے پیچھے چلے ہیں۔ آل احمد سرور
دربار کی وجہ سے شاعری میں شائستگی اور نازک خیالی، صناعی اور ہمواری آئی ہے۔ عیش امروز اور جسم کا احساس ابھرا ہے۔ آل احمد
سادگی، شاعری کی کوئی بنیادی قدر نہیں ہے۔ بنیادی قدر شعریت ہے اور یہ شعریت بڑی پرکار سادگی رکھتی ہے اور ضرورت پڑنے پر مشکل
Article
تنقید کیا ہے؟
مغرب کے اثر سے اردو میں کئی خوشگوار اضافے ہوئے، ان میں سب سے اہم فن تنقید ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ مغرب
اقبال اور ان کے نکتہ چیں
اقبال کو اپنی زندگی میں جو مقبولیت حاصل ہوئی، وہ آج تک کسی شاعر کو نصیب نہ ہوئی۔ قبول عام کلام کی خوبی کا ضامن
غزل کا فن
غزل کے سلسلے میں پہلے اپنے دو شعر پڑھنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ غزل میں ذات بھی ہے اور کائنات بھی ہے ہمارے بات بھی
اقبال، فیض اور ہم
میں اردو مرکز لندن کے عہدہ داروں اور اراکین کا ممنون ہوں کہ انہوں نے فیض کی پہلی برسی کے موقع پر مجھے لندن آنے
اردو اور ہندوستانی تہذیب
بظاہر اردو اور ہندوستانی تہذیب کے موضوع پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی کیونکہ اردو ایک جدید ہندوستانی زبان ہے اور ہماری
شاعری اور نثر کا فرق
اسلوبیات اور ساختیات کے ماہروں کا کہنا یہ ہے کہ norm یا معمول نثر ہے اور شاعری دراصل اس معمول میں وقفے PAUSE یا انحراف
اردو شاعری میں تصوف کی روایت
میلکام مگرج، مشہور انگریزی مصنف نے کہا ہے کہ ’’ہندوستان میں اب صرف وہی انگریز باقی رہ گئے ہیں جو تعلیم یافتہ ہندوستانی ہیں۔‘‘ اس
فکشن کیا کیوں اور کیسے
ڈی ایچ لارنس کہتا ہے، ’’میں زندہ انسان ہوں اور جب تک میرے بس میں ہے میرا ارادہ زندہ انسان رہنے کا ہے۔ اس لیے
ترقی پسند تحریک پر ایک نظر
آزادؔ نے آب حیات میں میرؔ کا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ ایک دفعہ ایک کرم فرما نے ان کے لیے ایک ایسے مکان کا
اکبر کی ظرافت اور اس کی اہمیت
میرؔ یڈتھ کا قول ہے کہ ’’کسی ملک کے متمدن ہونے کی سب سے عمدہ کسوٹی یہ ہے کہ آیا وہاں ظرافت کا تصور اور
اقبال اور نئی مشرقیت
اقبالؔ نے اپنے متعلق کہا ہے، کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق میں ابلۂ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند ابلۂ مسجد اس
میر کے مطالعے کی اہمیت
اردو شعر و ادب کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باوجود یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ابھی تک ہمارے بہت سے امامان فن کے کلیات
Tanz-O-Mazakh
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
راوی، یادگار غالب میں حالی لکھتے ہیں، ’’مرنے سے کئی برس پہلے چلنا پھرنا موقوف ہوگیا تھا۔ اکثر اوقات پلنگ پر پڑے رہتے تھے۔ غذا