Momin Khan Momin
- 1800–14 May 1852
- Dehli, India
Introduction
Ghazal
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا رنج راحت فزا نہیں ہوتا بے وفا کہنے کی شکایت ہے تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا ذکر اغیار
آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو
آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو ہے بو الہوسوں پر بھی ستم ناز تو دیکھو اس بت کے لیے میں ہوس حور سے
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ
دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہوں گے
دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہوں گے فلس ماہی کے گل شمع شبستاں ہوں گے ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے نیم
قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق
قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق سچ تو یوں ہے بری بلا ہے عشق اثر غم ذرا بتا دینا وہ بہت پوچھتے ہیں کیا
رویا کریں گے آپ بھی پہروں اسی طرح
رویا کریں گے آپ بھی پہروں اسی طرح اٹکا کہیں جو آپ کا دل بھی مری طرح آتا نہیں ہے وہ تو کسی ڈھب سے
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم ہنستے جو دیکھتے ہیں
ڈر تو مجھے کس کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
ڈر تو مجھے کس کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا پر حال یہ افشا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا ناصح یہ گلہ کیا
تم بھی رہنے لگے خفا صاحب
تم بھی رہنے لگے خفا صاحب کہیں سایہ مرا پڑا صاحب ہے یہ بندہ ہی بے وفا صاحب غیر اور تم بھلے بھلا صاحب کیوں
وہ کہاں ساتھ سلاتے ہیں مجھے
وہ کہاں ساتھ سلاتے ہیں مجھے خواب کیا کیا نظر آتے ہیں مجھے اس پری وش سے لگاتے ہیں مجھے لوگ دیوانہ بناتے ہیں مجھے
غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا میری طرف بھی غمزۂ غماز دیکھنا اڑتے ہی رنگ رخ مرا نظروں سے تھا نہاں اس مرغ
عدم میں رہتے تو شاد رہتے اسے بھی فکر ستم نہ ہوتا
عدم میں رہتے تو شاد رہتے اسے بھی فکر ستم نہ ہوتا جو ہم نہ ہوتے تو دل نہ ہوتا جو دل نہ ہوتا تو
Sher
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا مومن خاں مومن
عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومنؔ
عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومنؔ آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے مومن خاں مومن
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا مومن خاں مومن
جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا
جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو مومن خاں
وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو مومن خاں
وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا مومن خاں مومن
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں مومن خاں مومن
آپ کی کون سی بڑھی عزت
آپ کی کون سی بڑھی عزت میں اگر بزم میں ذلیل ہوا مومن خاں مومن
کسی کا ہوا آج کل تھا کسی کا
کسی کا ہوا آج کل تھا کسی کا نہ ہے تو کسی کا نہ ہوگا کسی کا مومن خاں مومن
Rubai
مومن یہ اثر سیاہ مستی کا نہ ہو
مومن یہ اثر سیاہ مستی کا نہ ہو اندیشہ کبھی بلند و پستی کا نہ ہو توحید وجودی میں جو ہے کیفیت ڈرتا ہوں کہ
ہے شرم گنہ سے جاں کیسی بے تاب
ہے شرم گنہ سے جاں کیسی بے تاب پر ذکر جہاں ہوا، ہوا جی ہے تاب یارب کہ مؤثر نہ ہو کہنا میرا یارب ہے
کیوں زرد ہے رنگ کس لیے آنسو لال
کیوں زرد ہے رنگ کس لیے آنسو لال کس واسطے ہر گھڑی رہے ہے تو نڈھال کیا شکل پہ بن گئی ہے تیری مومنؔ کیا
افسوس شکایت نہانی نہ گئی
افسوس شکایت نہانی نہ گئی دل پر سے رقیب کی گرانی نہ گئی الطاف تھے بس کہ رو بروئے دشمن اس شوخ سے بد گمانی