![Shamim Farooqui 1 jpg 20230721 190333 0000](https://iztirab.com/wp-content/uploads/2023/07/jpg_20230721_190333_0000-1024x1024.jpg)
Shamim Farooqui
- 25 December 1943
- Patna, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
بہت گھٹن ہے بہت اضطراب ہے مولا
بہت گھٹن ہے بہت اضطراب ہے مولا ہمارے سر پہ یہ کیسا عذاب ہے مولا سنا تھا میں نے یہی دن ہیں پھول کھلنے کے
جو بھی کہنا ہو وہاں میری زبانی کہنا
جو بھی کہنا ہو وہاں میری زبانی کہنا لوگ کچھ بھی کہیں تم آگ کو پانی کہنا آج وہ شخص زمانے میں ہے یکتا کہہ
مرے ہاتھ کی سب دعا لے گیا
مرے ہاتھ کی سب دعا لے گیا وہ کیا لینے آیا تھا کیا لے گیا فقط رو رہا ہوں کسے یاد ہے کوئی چھین کر
شرمیلی چھوئی موئی عجب موہنی سی تھی
شرمیلی چھوئی موئی عجب موہنی سی تھی ندی یہ گاؤں میں تھی تو کتنی بھلی سی تھی صحرا بھی تھا اداس سمندر بھی تھا خموش
کتاب کون سی ہے اور کس زبان میں ہے
کتاب کون سی ہے اور کس زبان میں ہے سنا ہے ذکر ہمارا بھی داستان میں ہے اسی نے دھوپ میں چلنے کی جیت لی
ڈوبتے سورج کا منظر وہ سہانی کشتیاں
ڈوبتے سورج کا منظر وہ سہانی کشتیاں پھر بلاتی ہیں کسی کو بادبانی کشتیاں اک عجب سیلاب سا دل کے نہاں خانے میں تھا ریت
اندھیری شب ہے کہاں روٹھ کر وہ جائے گا
اندھیری شب ہے کہاں روٹھ کر وہ جائے گا کھلا رہے گا اگر در تو لوٹ آئے گا جو ہو سکے تو اسے خط ضرور
سچ ہے کہ اپنا رخ بھی بدلنا پڑا مجھے
سچ ہے کہ اپنا رخ بھی بدلنا پڑا مجھے میں قافلے کے ساتھ تھا چلنا پڑا مجھے بے وجہ دل کو تھی نئے منظر کی
میری عنایتوں کے طلب گار آ گئے
میری عنایتوں کے طلب گار آ گئے رحمت پکار اٹھی گنہ گار آ گئے اک لمحۂ سکون ملا مدتوں کے بعد اس کو بھی چھیننے
جو ہو سکے تو کبھی قید جسم و جاں سے نکل
جو ہو سکے تو کبھی قید جسم و جاں سے نکل یہاں سے میں بھی نکلتا ہوں تو وہاں سے نکل ادھر ادھر سے نکلنا
اب کے سودا تو مرے سر سے بہت آگے تھا
اب کے سودا تو مرے سر سے بہت آگے تھا کیا ارادہ کسی پتھر سے بہت آگے تھا آپ کو کیسے خبر ہو گئی جلنے
تیری محبتوں کے گرفتار آ گئے
تیری محبتوں کے گرفتار آ گئے یعنی اذیتوں کے طلب گار آ گئے یہ جانتے ہوئے کہ خریدار ہی نہیں ہم خواب بیچنے سر بازار
Sher
گناہ جتنے بھی میرے ہیں سب شمار میں ہیں
گناہ جتنے بھی میرے ہیں سب شمار میں ہیں ترا کرم تو مگر بے حساب ہے مولا شمیم فاروقی
جتنا جی چاہے اسے آج حقیقت کہہ لو
جتنا جی چاہے اسے آج حقیقت کہہ لو کل اسے میری طرح تم بھی کہانی کہنا شمیم فاروقی
حسین رت ہے مگر کون گھر سے نکلے گا
حسین رت ہے مگر کون گھر سے نکلے گا ہر اک بدن میں سمایا ہوا ہے ڈر اب کے شمیم فاروقی
دور تک پھیلا ہوا ہے ایک انجانا سا خوف
دور تک پھیلا ہوا ہے ایک انجانا سا خوف اس سے پہلے یہ سمندر اس قدر برہم نہ تھا شمیم فاروقی