Mir Taqi Mir
- February 1723 – 20 September 1810
- Agra, India
Introduction
میر کو عام طور پر ایک شاعر سمجھا جاتا ہے ، لیکن اس کی عمدہ حیثیت اس بات پر ہے کہ اس نے وجودی مشکلات کو کس طرح حل کیا ، ایک شکل پیدا کی ، اس کی زبان تیار کی ، اور اسے کمال تک پہنچایا. ان کی شاعری کی ایک سب سے انوکھی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے زندگی اور زندگی کے ہر حصے میں اپنے آپ کو مکمل اخلاص اور کشادگی کے ساتھ بیان کیا ہے. انہوں نے اردو زبان میں چھ دیوان اور ایک فارسی غزلوں کا دیوان اور اسکے علاوہ مسدس ، مثنوی اور قصیدے لکھے ہیں. انہوں نے نوکاتوشوارا ( اردو شاعروں کا ایک تذکرہ ) زکر-ای میر ( ایک سوانح عمری ) بھی لکھی ہے, اور فیض ای میر ( صوفی شہدا کی خصوصیت ) جو اسے شاعر ، دائمی اور طرح کے نقاد کی حیثیت سے اردو ادب میں ایک اہمیت کا حامل مقام فراہم کرتا ہے۔
Ghazal
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا لوہو آتا ہے جب نہیں آتا ہوش جاتا نہیں رہا لیکن جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا صبر
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
فقیرانہ آئے صدا کر چلے میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم سو اس عہد کو
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک شعلہ اک
کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق
کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق حق شناسوں کے ہاں خدا ہے عشق دل لگا ہو تو جی جہاں سے اٹھا موت کا نام
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا قافلے میں صبح کے اک شور ہے یعنی غافل ہم چلے سوتا
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے لگنے نہ دے بس ہو
یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں
یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں اب دو تو جام خالی ہی دو میں نشے میں ہوں ایک ایک قرط دور میں یوں
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
ہستی اپنی حباب کی سی ہے یہ نمائش سراب کی سی ہے نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت
زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت دل لگا کر ہم تو پچھتائے بہت جب نہ تب جاگہ سے تم جایا کیے ہم تو اپنی اور
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق جان کا روگ ہے بلا ہے عشق عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو سارے عالم میں
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا عہد جوانی رو رو کاٹا
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا دل کے جانے کا نہایت غم رہا حسن تھا تیرا بہت عالم فریب خط کے آنے
Nazm
بطرز منقبت حضرت امام حسینؓ
اللہ کیا جگر تھا جفا میں حسینؓ کا جی ہی گیا ندان رضا میں حسینؓ کا اس تشنہ لب کا عرش سے برتر ہے مرتبہ
در تہنیت صحت
مزاج شخص جہاں تھا ترے مرض سے سست ہوا سو فضل الٰہی سے تندرست و چست خبر جو گرم ہے اب تیرے غسل صحت کی
Sher
کوئی تم سا بھی کاش تم کو ملے
کوئی تُم سا بھی کاش تُم کو مِلے مدعا ہم کو انِتقام سے ہے میر تقی میر
یاد اس کی اتنی خوب نہیں میرؔ باز آ
یاد اس کی اتنِی خّوب نہیں میرؔ باز آ نادان پھر وُہ جی سے بھلایا نہ جائے گا میر تقی میر
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
آگ تھے ابتدائے عِشق میں ہم اب جُو ہیں خاک انتہا ہے یہ میر تقی میر
اب تُو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
اب تُو جاتے ہیں بُت کدے سے میرؔ پھر ملیں گے اگر خُدا لایا میر تقی میر
ہم ہوئے تم ہوئے کے میرؔ ہوئے
ہم ہوئے تم ہوئے کے میرؔ ہوئے اُس کی زلفوں کہ سب اسیر ہوئے میر تقی میر
راہ دور عشق میں رُوتا ہے کیا
راہ دور عِشق میں رُوتا ہے کیا آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا میر تقی میر
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
دِل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے یہ نگر سُو مرتبہ لوٹا گیا میر تقی میر
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دُوا نے کام کیا
اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دُوا نے کام کیا دیکھا اِس بیماری دِل نے آخر کام تمام کیا میر تقی میر
کیا کہوں تم سے میں کے کیا ہے عشق
کیا کہوں تم سے میں کے کیا ہے عِشق جان کا روگ ہے بلا ہے عِشق میر تقی میر
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
پتا پتا بّوٹا بُوٹا حال ہمارا جانے ہے جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے باغ تُو سارا جانے ہے میر تقی میر
نازکی اس کہ لب کی کیا کہئے
نازکی اس کہ لب کی کیا کہئے پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے میر تقی میر
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
بارے دُنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو ایسا کچھ کر کہ چلو یاں کے بہت یاد رہو میر تقی میر
Marsiya
کرتا ہے یوں بیان سخن ران کربلا
کرتا ہے یوں بیان سخن ران کربلا احوال زار شاہ شہیدان کربلا باآنکہ تھا فرات پہ میدان کربلا پیاسا ہوا ہلاک وہ مہمان کربلا انصاف
آئی ہے شب قتل حسین ابن علی کی
آئی ہے شب قتل حسین ابن علی کی رخصت ہے سحر عترت والاے نبی کی کٹ جائے گی سب آل رسول عربی کی برہم ہی
حسین ابن علی عالی نسب تھا
حسین ابن علی عالی نسب تھا سزاے عزت و باب ادب تھا جفا و جور کا شائستہ کب تھا سلوک اسلامیوں سے یہ عجب تھا
نسیم غم سے ہے آتش بجاں امام حسین
نسیم غم سے ہے آتش بجاں امام حسین دم ایک اور ہے اب میہماں امام حسین چراغ آخر شب ہے گا یاں امام حسین سحر
سنو یہ قصۂ جانکاہ کربلاے حسین
سنو یہ قصۂ جانکاہ کربلاے حسین رکھو ادھر کو بھی ٹک گوش از براے حسین جہاں سے واسطے امت کے جی سے جائے حسین ہزار
وقت رخصت کے جو روتی تھی کھڑی زار بہن
وقت رخصت کے جو روتی تھی کھڑی زار بہن بولے شہ رو نہ بس اب اے مری غم خوار بہن کیا کروں جان کے دینے
پھر کیا یہ دھوم ہے کہ جہاں ہے سیہ تمام
پھر کیا یہ دھوم ہے کہ جہاں ہے سیہ تمام پھر کیا یہ ماجرا ہے کہ ہوگئی ہے صبح شام پھر کیا ہے یہ غبار
ایمان یہ کیسا تھا کیسی یہ مسلمانی
ایمان یہ کیسا تھا کیسی یہ مسلمانی کی آل پیمبر سے جو دشمنی جانی بے آبی میں کشتی تھی شبیر کی طوفانی دریا کے کنارے
الوداع اے افتخار نوع انساں الوداع
الوداع اے افتخار نوع انساں الوداع بادشاہ کم سپاہ اہل ایماں الوداع اے تمناے دل زہراے بیکس ہے دریغ وے ستم کشتہ علی کے خواہش
کہانی رات تھی آل نبی کی
کہانی رات تھی آل نبی کی مراد جان زہرا دل جلی کی مصیبت دیدگی ابن علی کی گئی سن نیند یک باری سبھی کی پدر
ابن علی سے سنا ہے یار و دشت بلا میں لڑائی ہوئی
ابن علی سے سنا ہے یار و دشت بلا میں لڑائی ہوئی ایدھر تھے ہفتاد و دو تن یہ اودھر ساری خدائی ہوئی صاف نکل
دکھ سے ترے کیا کلام
دکھ سے ترے کیا کلام یا امام یا حسین لیجیے کس منھ سے نام یا امام یا حسین ہائے رے تیرا جگر یاور و خویش
Rubai
تم تو اے مہربان انوٹھے نکلے
تم تو اے مہربان انوٹھے نکلے جب آن کے پاس بیٹھے روٹھے نکلے کیا کہیے وفا ایک بھی وعدہ نہ کیا یہ سچ ہے کہ
اک مرتبہ دل پہ اضطرابی آئی
اک مرتبہ دل پہ اضطرابی آئی یعنی کہ اجل میری شتابی آئی بکھرا جاتا ہے ناتوانی سے جی عاشق نہ ہوئے کہ اک خرابی آئی
بت خانے سے دل اپنے اٹھائے نہ گئے
بت خانے سے دل اپنے اٹھائے نہ گئے کعبے کی طرف مزاج لائے نہ گئے طور مسجد کو برہمن کیا جانے یاں مدت عمر میں
ملیے اس شخص سے جو آدم ہووے
ملیے اس شخص سے جو آدم ہووے ناز اس کو کمال پر بہت کم ہووے ہو گرم سخن تو گرد آوے یک خلق خاموش رہے
اے میرؔ کہاں دل کو لگایا تونے
اے میرؔ کہاں دل کو لگایا تونے شکل اپنی بگاڑ کر کڑھایا تونے جی میں نہ ترے حال نہ منھ پر کچھ رنگ اپنا یہ
اللہ کو زاہد جو طلب کرتے ہیں
اللہ کو زاہد جو طلب کرتے ہیں ظاہر تقویٰ کو کس سبب کرتے ہیں دکھلانے کو لوگوں کے دنوں کی ہے صلوٰۃ پیش انجم نماز
افسوس ہے عمر ہم نے یوں ہی کھوئی
افسوس ہے عمر ہم نے یوں ہی کھوئی دل جس کو دیا ان نے نہ کی دلجوئی جھنجھلا کے گلا چھری سے کاٹا آخر جھل
دل خوں ہے جگر داغ ہے رخسار ہے زرد
دل خوں ہے جگر داغ ہے رخسار ہے زرد حسرت سے گلے لگنے کی چھاتی میں ہے درد تنہائی و بیکسی و صحراگردی آنکھوں میں
کیا کیا اے عاشقی ستایا تونے
کیا کیا اے عاشقی ستایا تونے کیسا کیسا ہمیں کھپایا تونے اول کے سلوک میں کہیں کا نہ رکھا آخر کو ٹھکانے ہی لگایا تونے
حیرت ہے کہ ہو رقیب محرم تیرا
حیرت ہے کہ ہو رقیب محرم تیرا ہمراز و انیس وقت و ہمدم تیرا جوں عکس ترے سامنے اکثر وہ ہو جوں آئینہ منھ تکا
ہم میرؔ برے اتنے ہیں وہ اتنا خوب
ہم میرؔ برے اتنے ہیں وہ اتنا خوب متروک جہاں ہم ہیں وہ سب کا محبوب ہم ممکن اسے وجوب کا ہے رتبہ ہے کچھ
کیا تم سے کہوں میرؔ کہاں تک روؤں
کیا تم سے کہوں میرؔ کہاں تک روؤں روؤں تو زمیں سے آسماں تک روؤں جوں ابر جہاں جہاں بھرا ہوں غم سے شائستہ ہوں
Qita
سنا ہے چاہ کا دعویٰ تمہارا
سنا ہے چاہ کا دعویٰ تمہارا کہو جو کچھ کہ چاہو مہرباں ہو کنارا یوں کیا جاتا نہیں پھر اگر پائے محبت درمیاں ہو میر
مے کشی صبح و شام کرتا ہوں
مے کشی صبح و شام کرتا ہوں فاقہ مستی مدام کرتا ہوں کوئی ناکام یوں رہے کب تک میں بھی اب ایک کام کرتا ہوں
تڑپ ہے قیس کے دل میں تہ زمیں اس سے
تڑپ ہے قیس کے دل میں تہ زمیں اس سے غزال دشت نشان مزار پاتے ہیں وگرنہ خاک ہوئے کتنے ہی محبت میں کسی کا
نہ آیا وہ تو کیا ہم نیم جاں بھی
نہ آیا وہ تو کیا ہم نیم جاں بھی بغیر اس کے ملے دنیا سے جاویں چلی ہے تو تو اے جان المناک ٹک اک
نہ جانوں میرؔ کیوں ایسا ہے چپکا
نہ جانوں میرؔ کیوں ایسا ہے چپکا نمونہ ہے یہ آشوب و بلا کا کرو دن ہی سے رخصت ورنہ شب کو نہ سونے دے
پھر بھی کرتے ہیں میرؔ صاحب عشق
پھر بھی کرتے ہیں میرؔ صاحب عشق ہیں جواں اختیار رکھتے ہیں چوٹٹے دل کے ہیں بتاں مشہور بس یہی اعتبار رکھتے ہیں میر تقی
بتاں کے عشق نے بے اختیار کر ڈالا
بتاں کے عشق نے بے اختیار کر ڈالا وہ دل کہ جس کا خدائی میں اختیار رہا وہ دل کہ شام و سحر جیسے پکا
ہو عاشقوں میں اس کے تو آؤ میرؔ صاحب
ہو عاشقوں میں اس کے تو آؤ میرؔ صاحب گردن کو اپنی مو سے باریک تر کرو تم کیا لطف ہے وگرنہ جس دم وہ
ہر چند گدا ہوں میں ترے عشق میں لیکن
ہر چند گدا ہوں میں ترے عشق میں لیکن ان بو الہوسوں میں کوئی مجھ سا بھی غنی ہے ہر اشک مرا ہے در شہوار
یہی درد جدائی ہے جو اس شب
یہی درد جدائی ہے جو اس شب تو آتا ہے جگر مژگان تر تک دکھائی دیں گے ہم میت کے رنگوں اگر رہ جائیں گے
میں بے نوا اڑا تھا بوسے کو ان لبوں کے
میں بے نوا اڑا تھا بوسے کو ان لبوں کے ہر دم صدا یہی تھی دے گزرو ٹال کیا ہے پر چپ ہی لگ گئی
گہ سرگزشت ان نے فرہاد کی نکالی
گہ سرگزشت ان نے فرہاد کی نکالی مجنوں کا گاہے قصہ بیٹھا کہا کرے ہے ایک آفت زماں ہے یہ میرؔ عشق پیشہ پردے میں
Manqabat
ترجیع بند در مدح حضرت علی
قابل سجدہ ہے علی کا در باب تعظیم ہے علی کا گھر ہے علی ہی کا نام موجودات ہے علی افتخار نوع بشر فرش رہ
مخمس در مدح حضرت علی
ہادی علی رفیق علی رہنما علی یاور علی ممدّ علی آشنا علی مرشد علی کفیل علی پیشوا علی مقصد علی مراد علی مدعا علی جو
ہفت بند در مدح حضرت علی
بند اول السلام اے رازدار داور جاں آفریں السلام اے لامکاں کے حاکم مسندنشیں ذات تیری جوں خدا کی ذات ہے والاصفات بے شریک و
مخمس در مدح حضرت علی
ہراس روز محشر کیا محمد مصطفےٰؐ بس ہے کرم خصلت وفاسیرت علی مرتضےٰ بس ہے شفیع جرم سوز سینۂ خیرالنسا بس ہے نہ ٹکڑے دل
مخمس در مدح حضرت علی
اے مرتفع نشین علی العرش استوا وے غیر ماسواے خدا خویش مصطفےٰؐ تو تھا کہ تونے دوش نبی پر قدم رکھا بت توڑ توڑ شرک
مخمس ترجیع بند در مدح حضرت علی
عقل ہے تو مرا کہا کر تو محو یاد علی رہا کر تو یک طرح یہ بھی ہے رہا کر تو اشک رخسار پر بہا
مسدس ترجیع بند در مدح حضرت علی
جاتی ہے شب تارے گنتے دن کو پھرتا ہوں خراب کب تلک اس خاکداں میں جوں بگولا پیچ و تاب دل تڑپتا ہے جدا جی
مسدس ترجیع بند در مدح حضرت علی
درویش جو ہیں مقصد دلخواہ کہیں ہیں سالک جو ہیں وے راہبر راہ کہیں ہیں اک واقف اسرار و دل آگاہ کہیں ہیں اک چرخ
مخمس ترجیع بند در مدح حضرت علی
قدر کو میری بہت ہے برتری کب مری خورشید سے ہو ہمسری حکم بز رکھے ہے یاں شیر نری کر مخالف سوچ کر ٹک اژدری
قدر کو میری بہت ہے برتری
قدر کو میری بہت ہے برتری کب مری خورشید سے ہو ہمسری حکم بز رکھے ہے یاں شیر نری کر مخالف سوچ کر ٹک اژدری
مخمس ترجیع بند در مدح حضرت علی
پارسا ہیں جو جواں پیر ہدیٰ کہتے ہیں جو ولایت رکھے ہیں شاہ ولا کہتے ہیں سالک مسلک دل راہ نما کہتے ہیں ایک مولا
مسدس ترجیع بند در مدح حضرت علی
چیدہ خواروں میں شہ روم ترے صبح و شام ریزہ چینی سے تری بادشہ چیں کا قیام حبشی ہندی صفاہانی بخارائی تمام ہیں ترے دست
Masnavi
معاملات عشق
کچھ حقیقت نہ پوچھو کیا ہے عشق حق اگر سمجھو تو خدا ہے عشق عشق ہی عشق ہے نہیں ہے کچھ عشق بن تم کہو
شعلہ عشق 1
محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور محبت مسبب محبت سبب محبت سے آتے ہیں کار عجب محبت بن
خواب و خیال
خوشا حال اس کا جو معدوم ہے کہ احوال اپنا تو معلوم ہے رہیں جان غمناک کو کاہشیں گئیں دل سے نومید سو خواہشیں زمانے
جوش عشق
ضبط کروں میں کب تک آہ اب چل اے خامے بسم اللہ اب کر ٹک دل کا راز نہانی ثبت جریدہ میری زبانی یعنی میرؔ
دریا عشق
عشق ہے تازہ کار و تازہ خیال ہر جگہ اس کی اک نئی ہے چال دل میں جاکر کہیں تو درد ہوا کہیں سینے میں
اعجاز عشق
ثناے جہاں آفریں ہے محال زباں اس میں جنبش کرے کیا مجال کمالات اس کے ہیں سب پر عیاں کرے کوئی حمد اس کی سو
مور نامہ
دشت سے بستی میں آیا ایک مور زور تھا واں حسن کا رانی کے شور اڑ کے گھر راجا کے پہنچا بے قرار دیکھ اس
درحال مسافر جواں
خدا ایک فرقے میں مانا ہے عشق کہ نظم کل ان سب نے جانا ہے عشق نہ ہو عشق تو انس باہم نہ ہو نہ
شکار نامہ اول
چلا آصف الدولہ بہر شکار نہاد بیاباں سے اٹھا غبار روانہ ہوئی فوج دریا کے رنگ لگا کانپنے ڈر سے شیر و پلنگ طیور آشیانوں
نسنگ نامہ
پاؤ توفیق ٹک تو سر کو دھنو یہ بھی اک سانحہ ہے میرؔ سنو ہم کو درپیش تب سفر آیا جب کہ برسات سر ہی
در حال افغاں پسر
چمن سے عنایت کے بادام وار الٰہی زباں دے مجھے مغزدار صفت عشق کی تا کروں میں بیاں رہوں عشق کہنے سے میں تر زباں
شکار نامئہ دوم
مکرر ہے نواب کو قصد صید بیابان پہناور اب ہوں گے قید رواں بحر لشکر ہوا موج موج گئی چشم خورشید تک گرد فوج بحار
Naat
مسدس در نعت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم
جرم کی کھو شرمگینی یا رسول اور خاطر کی حزینی یا رسول کھینچوں ہوں نقصان دینی یا رسول تیری رحمت ہے یقینی یا رسول رحمۃ
Salam
اے شہ عالی مقام تجھ پہ درود و سلام
اے شہ عالی مقام تجھ پہ درود و سلام بعد ہزاراں سلام تجھ پہ درود و سلام اے شہ من الوداع وے مہ من الفراق
السلام اے کام جان مصطفےٰؐ
السلام اے کام جان مصطفےٰؐ السلام اے یادگار مرتضےٰ السلام اے مقصد خیرالنسا السلام اے پیشواے دوسرا کیا ستم ہے خیمے دریا پر ہوئے اور
اے شہ اقلیم شوکت السلام
اے شہ اقلیم شوکت السلام رونق تخت خلافت السلام اختر چرخ سیادت الصلوٰۃ نیر برج سعادت السلام تو جو ناگہ خانہ روشن کر گیا تیرہ
ساقی کوثر کے پیارے السلام
ساقی کوثر کے پیارے السلام تشنہ لب سید ہمارے السلام صبح تیرے قتل کی تھی صبح قیر شام کے لوگوں کے مارے السلام آسماں خم
اے گل خوش رنگ گلزار شہادت السلام
اے گل خوش رنگ گلزار شہادت السلام تیری مظلومی کی سب دیں گے شہادت السلام جور دیکھے تونے کیا کیا لال سنگ جور سے اے
اے بدخشان نبیؐ کے لعل احمر السلام
اے بدخشان نبیؐ کے لعل احمر السلام وے گلستان علی کے لالۂ تر السلام ایک ساعت ہی میں امت پھر گئی نانا کی سب کیا
اے سبط مصطفےٰ کے تجھ کو سلام پہنچے
اے سبط مصطفےٰ کے تجھ کو سلام پہنچے اے جان مرتضےٰ کے تجھ کو سلام پہنچے اے حکم کش قضا کے تجھ کو سلام پہنچے
Qasida
در مدح حضرت امام حسین
فلک کے جور و جفا نے کیا ہے مجھ کو شکار ہزار کوس پہ ہے جاے اک تپیدن وار خراب کوہ و بیابان بیکسی ہوں
در مدح حضرت علی مرتضیٰ
غنچے ہو دل پر آتے ہیں اندوہ اب مدام پہنچے ہے مجھ کو داغ گل جنگ صبح و شام اے کج روش تو نامہ نہ
در مدح حضرت علی مرتضیٰ
جب سے خورشید ہوا ہے چمن افروز حمل رنگ گل جھمکے ہے ہر پات ہرے کے اوجھل وقت وہ ہے کہ زبس شوق سے چشم
در مدح بادشاہ جم جاہ خاور سپاہ شاہ عالم بادشاہ
جو پہنچی قیامت تو آہ و فغاں ہے مرے ہاتھ میں دامن آسماں ہے کوئی آج سے ہے فلک مدعی کیا ہمیشہ مرے حال پر
در مدح نواب آصف الدولہ بہادر
رات کو مطلق نہ تھی یاں جی کو تاب آشنا ہوتا نہ تھا آنکھوں سے خواب لوٹتا تھا سوز غم سے آگ میں دل جگر
در مدح حضرت علی مرتضیٰ
اک شب کیا تھا یار تری زلف کا خیال اب تک ہے دشمنی میں مری میرا بال بال میں مر گیا فراق میں پر اب
در مدح نواب آصف الدولہ بہادر
ہوا کیے ہیں زبس شکوۂ فلک تحریر سیہ ہے کاغذ مشقی کے رنگ لوح ضمیر کروں نہ شکر جفاہاے آسماں کیوں کر مری خرابی میں
در شکایت نفاق یاران زماں
جہاں میں کون ہے جس کو کسی سے الفت ہے خراب کوچہ و بازار یاں محبت ہے نفاق خانہ برانداز بسکہ ہے رائج دل اتفاق
Miriyaat
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا عہد جوانی رو رو کاٹا
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا ہنگامہ گرم کن جو دل ناصبور تھا
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
فقیرانہ آئے صدا کر چلے کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم سو اس عہد
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا شرمندہ ترے رخ سے ہے رخسار
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے لگنے نہ دے بس ہو
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا لوہو آتا ہے جب نہیں آتا ہوش جاتا نہیں رہا لیکن جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا صبر
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک شعلہ اک
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
ہستی اپنی حباب کی سی ہے یہ نمائش سراب کی سی ہے چشم دل کھول اس بھی عالم پر یاں کی اوقات خواب کی سی
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا کب تک تظلم آہ بھلا مرگ کے تئیں
شہروں ملکوں میں جو یہ میرؔ کہاتا ہے میاں
شہروں ملکوں میں جو یہ میرؔ کہاتا ہے میاں دیدنی ہے پہ بہت کم نظر آتا ہے میاں عالم آئینہ ہے جس کا وہ مصور
دل کی بات کہی نہیں جاتی چپکے رہنا ٹھانا ہے
دل کی بات کہی نہیں جاتی چپکے رہنا ٹھانا ہے حال اگر ہے ایسا ہی تو جی سے جانا جانا ہے اس کی نگاہ تیز
وہ نہیں اب کہ فریبوں سے لگا لیتے ہیں
وہ نہیں اب کہ فریبوں سے لگا لیتے ہیں ہم جو دیکھیں ہیں تو وے آنکھ چھپا لیتے ہیں کچھ تفاوت نہیں ہستی و عدم
Mukhammasaat-E-Ishqiya
Hajviyaat-E-Mukhammasaa
۱
یہ بات جھوٹ نہیں صدق کی صفا کی قسم ترے ہی لطف کا وابستہ ہوں وفا کی قسم عبث جو قسمیں ہے دیوے تو مصطفےٰؐ
۲
واں ان نے دل کیا ہے مانند سنگ خارا یاں تن ہوا ہے پانی ہوکر گداز سارا کیا پوچھتا ہے ہمدم احوال تو ہمارا نے
در ہجو بلاس رائے
سنو یارو بلاس رائے کا حال ایک لچا ہے وہ عجائب مال کام لینا ہے اس سے امر محال سو جواں جا اڑیں تو دیوے
در بیان دستخطی فرد
دستخطی فرد کا سنو احوال بے دماغی سے میں تو دی تھی ڈال ایک مشفق کو تھا ادھر کا خیال مہربانی سے ان نے کھوج
Rubai Mustazaad
دلی میں بہت سخت کی اب کے گذران
(1) دلی میں بہت سخت کی اب کے گذران دل کو کر سنگ عزت نہ رہی عاقبت کار نہ شان کھینچا یہ ننگ یاروں میں
دلی میں بہت سخت کی اب کے گذران
(1) دلی میں بہت سخت کی اب کے گذران دل کو کر سنگ عزت نہ رہی عاقبت کار نہ شان کھینچا یہ ننگ یاروں میں
Khud-Navisht-Savaneh
در ہجو خانۂ_خود
کیا لکھوں میرؔ اپنے گھر کا حال اس خرابے میں میں ہوا پامال گھر کہ تاریک و تیرہ زنداں ہے سخت دل تنگ یوسف جاں
در ہجو خانۂخود کہ بہسبب شدت_باراں خراب شدہ بود
جسم خاکی میں جس طرح جاں ہے اس طرح خانہ ہم پہ زنداں ہے ظلمتیں اس کی سب پہ روشن ہیں زندہ درگور ہم کئی
در شہر کا ما حسب_حال خود
قابل ہے میرؔ سیر کے اطوار روزگار چالیں عجب طرح کی چلے ہے کجی شعار کرتا ہے بدسلوکی سبھوں سے یہ بے مدار لاتا ہے
در ہال لشکر
مشکل اپنی ہوئی جو بود و باش آئے لشکر میں ہم براے تلاش آن کر دیکھی یاں کی طرفہ معاش ہے لب ناں پہ سو
درہجولشکر
جس کسو کو خدا کرے گمراہ آوے لشکر میں رکھ امید رفاہ یاں نہ کوئی وزیر ہے نے شاہ جس کو دیکھو سو ہے بہ
Waasokht
طرز اے رشک چمن اب تری کچھ تازی ہے (1)
طرز اے رشک چمن اب تری کچھ تازی ہے ساتھ غیروں کے مرے حق میں سخن سازی ہے داغ رکھنے کو مرے ان ہی سے
سچ کہو شہر میں صحرا میں کہاں رہتے ہو( 2)
سچ کہو شہر میں صحرا میں کہاں رہتے ہو یاں بہت رہتے ہو خوش باش کہ واں رہتے ہو ان دنوں یاروں کی آنکھوں سے
یاد ایام کہ خوبی سے خبر تجھ کو نہ تھی( 3)
یاد ایام کہ خوبی سے خبر تجھ کو نہ تھی سرمہ و آئینہ کی اور نظر تجھ کو نہ تھی فکر آراستگی شام و سحر
ایک دن وے تھے کہ تم کو نہ فریب آتے تھے( 4)
ایک دن وے تھے کہ تم کو نہ فریب آتے تھے اونی سونی بھی مرے آگے اٹھا جاتے تھے مدعی کاہے کو مجلس میں جگہ
Tazmin
تضمین مطلعخود با مطلعاستاد
نہ اسکندر نہ دارا ہے نہ کسریٰ ہے نہ قیصر ہے یہ بیت المال ملک بے وفا بے وارثا گھر ہے جہان کہنہ خلقے را
تضمین در مثلث
ٹک یہ بھی رکھو سن تم اے ارباب تعلق اوقات خوش آں بود کز اسباب تعلق آزردہ دلے داشتم آنہم دگرے داشت کیا کہوں میں
تضمین در مخمس (2)
بیخودانہ ہیں کئی حرف زباں پر کر گوش آج کہتا ہوں کہ ہے خم کدۂ دل میں جوش پاے رفتن تو نہ تھے لیک مجھے
تضمین در مخمس (1)
کیا کہوں مجھ پہ جو گذرے ہے جفاکاری دل درپئے دشمنی جاں ہے یہی یاری دل ایک شب ہو تو کروں شرح غم و زاری
Tarkib Band
میری تو بساط چشم تر ہے
میری تو بساط چشم تر ہے سو نذر ہے اس پہ گر نظر ہے اس دشت میں زندہ ہوں میں جس میں ہر گام پہ
عمر گذری ہوچکا آسودگی کا روزگار
عمر گذری ہوچکا آسودگی کا روزگار رنج و محنت کے تئیں آرام سے ہے ننگ و عار معرکہ ہے یک طرف دونوں ہوئے ہیں سامنے