Mohammad Meer Soz Dehlvi
- 1720–1799
- Dehli, India
Introduction
Ghazal
اپنے نالے میں گر اثر ہوتا
اپنے نالے میں گر اثر ہوتا قطرہ اشک بھی گہر ہوتا جن کے نامے کی ہے پہنچ تجھ تک کاش میں ان کا نامہ بر
جو ہم سے تو ملا کرے گا
جو ہم سے تو ملا کرے گا بندہ تجھ کو دعا کرے گا بوسہ تو دے کبھو مری جان مولا ترا بھلا کرے گا ہم
محبت منہ پہ کرنا اور دل میں بے وفائی ہے
محبت منہ پہ کرنا اور دل میں بے وفائی ہے یہ آئینہ یہاں کہتا ہے کیسی آشنائی ہے بھلا بوسہ ہم اس سے آج مانگیں
ترا ہم نے جس کو طلب گار دیکھا
ترا ہم نے جس کو طلب گار دیکھا اسے اپنی ہستی سے بے زار دیکھا ادا ہی کی حسرت میں سب مر گئے سچ تجلی
جس کا تجھ سا حبیب ہووے گا
جس کا تجھ سا حبیب ہووے گا کون اس کا رقیب ہووے گا بے وطن بے رفیق بے اسباب کون ایسا غریب ہووے گا درد
حسن کی گر زکوۃ پاؤں میں
حسن کی گر زکوۃ پاؤں میں تو بھکاری ترا کہاؤں میں ایک بوسہ دو دوسرا توبہ پھر جو مانگوں تو مار کھاؤں میں اس طرح
ہمیں کون پوچھے ہے صاحبو نہ سوال میں نہ جواب میں
ہمیں کون پوچھے ہے صاحبو نہ سوال میں نہ جواب میں نہ تو کوئی آدمی جانے ہے نہ حساب میں نہ کتاب میں نہ تو
ناصحو دل کس کنے ہے کس کو سمجھاتے ہو تم
ناصحو دل کس کنے ہے کس کو سمجھاتے ہو تم کیوں دوانے ہو گئے ہو جان کیوں کھاتے ہو تم مجھ سے کہتے ہو کہ
تو ہم سے جو ہم شراب ہوگا
تو ہم سے جو ہم شراب ہوگا بہتوں کا جگر کباب ہوگا ڈھونڈھے گا سحاب چھپنے کو مہر جس روز وہ بے نقاب ہوگا خوباں
یہ تیرا عشق کب کا آشنا تھا
یہ تیرا عشق کب کا آشنا تھا کہاں کا جان کو میری دھرا تھا وہ ساعت کون سی تھی یا الہی کہ جس ساعت دو
اگر میں جانتا ہے عشق میں دھڑکا جدائی کا
اگر میں جانتا ہے عشق میں دھڑکا جدائی کا تو جیتے جی نہ لیتا نام ہرگز آشنائی کا جو عاشق صاف ہیں دل سے انہیں
عشاق تیرے سب تھے پر زار تھا سو میں تھا
عشاق تیرے سب تھے پر زار تھا سو میں تھا جگ کے خرابہ اندر اک خوار تھا سو میں تھا داخل شہیدوں میں تو لوہو
Sher
محبت منہ پہ کرنا اور دل میں بے وفائی ہے
محبت منہ پہ کرنا اور دل میں بے وفائی ہے یہ آئینہ یہاں کہتا ہے کیسی آشنائی ہے میر سوز دہلوی
محبوں کو کریں ہیں قتل دشمن کو جلاتے ہیں
محبوں کو کریں ہیں قتل دشمن کو جلاتے ہیں بتوں کی بھی میاں صاحب نرالی ہی خدائی ہے میر سوز دہلوی
جس کا تجھ سا حبیب ہووے گا
جس کا تجھ سا حبیب ہووے گا کون اس کا رقیب ہووے گا میر سوز دہلوی
مل رہے گا کبھی تو دنیا میں
مل رہے گا کبھی تو دنیا میں گر ہمارا نصیب ہووے گا میر سوز دہلوی
سوزؔ کو وہ ملائے گا تجھ سے
سوزؔ کو وہ ملائے گا تجھ سے جو خدا کا حبیب ہووے گا میر سوز دہلوی
جو ہم سے تو ملا کرے گا
جو ہم سے تو ملا کرے گا بندہ تجھ کو دعا کرے گا میر سوز دہلوی
بوسہ تو دے کبھو مری جان
بوسہ تو دے کبھو مری جان مولا ترا بھلا کرے گا میر سوز دہلوی
ہم تم بیٹھیں گے پاس مل کر
ہم تم بیٹھیں گے پاس مل کر وہ دن بھی کبھو خدا کرے گا میر سوز دہلوی
ہے شوخ مزاج سوزؔ واللہ
ہے شوخ مزاج سوزؔ واللہ چھیڑے گا اسے برا کرے گا میر سوز دہلوی
شہر کو چھوڑ کر نکل جاؤں
شہر کو چھوڑ کر نکل جاؤں ہاں تجھے منہ نہ پھر دکھاؤں میں میر سوز دہلوی
ایک بوسہ دو دوسرا توبہ
ایک بوسہ دو دوسرا توبہ پھر جو مانگوں تو مار کھاؤں میں میر سوز دہلوی
ہمیں کون پوچھے ہے صاحبو نہ سوال میں نہ جواب میں
ہمیں کون پوچھے ہے صاحبو نہ سوال میں نہ جواب میں نہ تو کوئی آدمی جانے ہے نہ حساب میں نہ کتاب میں میر سوز