Ali Akbar Natiq
- 22 December 1974
- Okara, Punjab, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
زرد پھولوں میں بسا خواب میں رہنے والا
زرد پھولوں میں بسا خواب میں رہنے والا دھند میں الجھا رہا نیند میں چلنے والا دھوپ کے شہر مری جاں سے لپٹ کر روئے
قید خانے کی ہوا میں شور ہے آلام کا
قید خانے کی ہوا میں شور ہے آلام کا بھید کھلتا کیوں نہیں اے دل ترے آرام کا فاختائیں بولتی ہیں بجروں کے دیس میں
ہوا کے تخت پر اگر تمام عمر تو رہا
ہوا کے تخت پر اگر تمام عمر تو رہا مجھے خبر نہ ہو سکی پہ ساتھ ساتھ میں بھی تھا چمکتے نور کے دنوں میں
باد صحرا کو رہ شہر پہ ڈالا کس نے
باد صحرا کو رہ شہر پہ ڈالا کس نے تار وحشت کو گریباں سے نکالا کس نے مختصر بات تھی، پھیلی کیوں صبا کی مانند
کنول ہوں آب میں خوش گل صبا میں شاد رہیں
کنول ہوں آب میں خوش گل صبا میں شاد رہیں ترے حزیں تری آب و ہوا میں شاد رہیں پلٹ کے دیس کے باغوں میں
غنچہ غنچہ ہنس رہا تھاپتی پتی رو گیا
غنچہ غنچہ ہنس رہا تھاپتی پتی رو گیا پھول والوں کی گلی میں گل تماشا ہو گیا ہم نے دیکھیں دھوپ کی سڑکوں پہ جس
حریم دل کہ سر بسر جو روشنی سے بھر گیا
حریم دل کہ سر بسر جو روشنی سے بھر گیا کسے خبر، میں کن دیوں کی راہ سے گزر گیا غبار شہر میں اسے نہ
چاندی والے شیشے والے آنکھوں والے شہر میں
چاندی والے شیشے والے آنکھوں والے شہر میں کھو گیا اک شخص مجھ سے، دیکھے بھالے شہر میں مندروں کے صحن میں صدیوں پرانی گھنٹیاں
امن قریوں کی شفق فام سنہری چڑیاں
امن قریوں کی شفق فام سنہری چڑیاں میرے کھیتوں میں اڑیں شام سنہری چڑیاں ناریاں دل کے مضافات میں اتریں آ کر ہو بہو جیسے
رو چلے چشم سے گریہ کی ریاضت کر کے
رو چلے چشم سے گریہ کی ریاضت کر کے آنکھیں بے نور ہیں یوسف کی زیارت کر کے دل کا احوال تو یہ ہے کہ
دن کا سمے ہے، چوک کنویں کا اور بانکوں کے جال
دن کا سمے ہے، چوک کنویں کا اور بانکوں کے جال ایسے میں ناری تو نے چلی پھر تیتری والی چال جامنوں والے دیس کے
پھول پری جب اڑ جائے گی پھر مانگیں گے خوشبو لوگ
پھول پری جب اڑ جائے گی پھر مانگیں گے خوشبو لوگ وحشی نافہ گراں نہ رہے تو ڈھونڈنے بھاگے ہر سو لوگ چھونے چلے ہو
Nazm
نام و نسب
اے مرا نام و نسب پوچھنے والے سن لے میرے اجداد کی قبروں کے پرانے کتبے جن کی تحریر مہ و سال کے فتنوں کی
بے یقیں بستیاں
وہ اک مسافر تھا جا چکا ہے بتا گیا تھا کہ بے یقینوں کی بستیوں میں کبھی نہ رہنا کبھی نہ رہنا کہ ان پہ
مرے چراغ بجھ گئے
مرے چراغ بجھ گئے میں تیرگی سے روشنی کی بھیک مانگتا رہا ہوائیں ساز باز کر رہی تھیں جن دنوں سیاہ رات سے انہی سیاہ
مصیبت کی خبریں
مصیبت کی خبریں سنو شام والو مصیبت کی خبریں گریبان دامن تلک چاک کر دو سروں پر سواروں کی روندی ہوئی خاک ڈالو ابو قیس
اٹھیں گے موت سے پہلے اسی سفر کے لیے
اٹھیں گے موت سے پہلے اسی سفر کے لیے جسے حیات کے صدموں نے ملتوی نہ کیا وہ ہم کہ پھول کی لو کو فریب
چرواہے کا جواب
آگ برابر پھینک رہا تھا سورج دھرتی والوں پر تپتی زمیں پر لو کے بگولے خاک اڑاتے پھرتے تھے نہر کنارے اجڑے اجڑے پیڑ کھڑے
سرمہ ہو یا تارا
درد کی لذت سے ناواقف خوشبو سے مانوس نہ تھا میرے گھر کی مٹی سے وہ شخص بہت بیگانہ تھا تارے چنتے چنتے جس نے
پیاسہ اونٹ
جس وقت مہار اٹھائی تھی میرا اونٹ بھی پیاسا تھا مشکیزے میں خون بھرا تھا آنکھ میں صحرا پھیلا تھا خشک ببولوں کی شاخوں پر
ہجوم گریہ
ہمیں بھی رو لے ہجوم گریہ کہ پھر نہ آئیں گے غم کے موسم ہمیں بھی رو لے کہ ہم وہی ہیں جو آفتابوں کی
نوحہ
وہی بادلوں کے برسنے کے دن تھے مگر وہ نہ برسے مبارک ہو شوریٰ کی صنعت گری کو مشقت سے بیجوں کو تیار کر کے
سفیر لیلیٰ-4
حریم محمل میں آ گیا ہوں سلام لے لو سلام لے لو کہ میں تمہارا امین قاصد خجل مسافر عزا کی وادی سے لوٹ آیا
سفیر لیلیٰ-3
سفیر لیلیٰ یہ کیا ہوا ہے شبوں کے چہرے بگڑ گئے ہیں دلوں کے دھاگے اکھڑ گئے ہیں شفیق آنسو نہیں بچے ہیں غموں کے
Sher
دھوپ کے شہر مری جاں سے لپٹ کر روئے سرد شاموں کی طرف میں تھا نکلنے والا علی اکبر ناطق
آگ پھولوں کی طلب میں تھی، ہواؤں پہ رکی نذر جاں کس کی ہوئی، راہ سے ٹالا کس نے علی اکبر ناطق
کسی کا سایہ رہ گیا گلی کے عین موڑ پر اسی حبیب سائے سے بنی ہماری داستاں علی اکبر ناطق
مختصر بات تھی، پھیلی کیوں صبا کی مانند درد مندوں کا فسانہ تھا، اچھالا کس نے علی اکبر ناطق
سرد راتوں کی ہوا میں اڑتے پتوں کے مثیل کون تیرے شب نوردوں کو سنبھالے شہر میں علی اکبر ناطق
دھوپ پھیلی تو کہا دیوار نے جھک کر مجھے مل گلے میرے مسافر، میرے سائے کے حبیب علی اکبر ناطق
زرد پھولوں میں بسا خواب میں رہنے والا دھند میں الجھا رہا نیند میں چلنے والا علی اکبر ناطق
اتنا آساں نہیں پانی سے شبیہیں دھونا خود بھی روئے گا مصور یہ قیامت کر کے علی اکبر ناطق
فاختائیں بولتی ہیں بجروں کے دیس میں تو بھی سن لے آسماں یہ گیت میرے نام کا علی اکبر ناطق
آسماں کے روزنوں سے لوٹ آتا تھا کبھی وہ کبوتر اک حویلی کے چھجوں میں کھو گیا علی اکبر ناطق
آدھے پیڑ پہ سبز پرندے آدھا پیڑ آسیبی ہے کیسے کھلے یہ رام کہانی کون سا حصہ میرا ہے علی اکبر ناطق
کوئی نہ رستہ ناپ سکا ہے، ریت پہ چلنے والوں کا اگلے قدم پر مٹ جائے گا پہلا نقش ہمارا بھی علی اکبر ناطق
Short Story
نسلیں
یہ آدمی کچھ ہی دن پہلے اِس پارک میں آیا تھا۔ پھٹی پرانی شرٹ کے ساتھ میلا چکٹ پاجامہ اور پاجامے کوکپڑے کی ایک دھجی
سفید موتی
وہ ہم سے پانچ گھر چھوڑ کے رہتا تھا لیکن یہ بات میں نہیں جانتا تھا۔ میں تو اسے سکول میں دیکھتا ہے۔ اس دن
کت
رفیق کا قد ساڑھے چھ فٹ اور چھاتی چوڑی تھی۔ اس کے پاس بہت سی بھینسیں تھیں۔ ڈانگ لکڑ ہاتھ میں لے کر نہ چلتا
شاہ محمد کا تانگہ
میں دیر تک بوسیدہ دیوار سے لگا، تانگے کے ڈھانچے کو دیکھتا رہا، جس کا ایک حصہ زمین میں دھنس چکا تھا اور دوسرا ایک
تمغہ
ڈی آئی جی سمیت پولیس کے تمام افسران موجود تھے۔ سرخ قالینوں اور کرسیوں پر لوگوں کی بڑی تعداد جمع تھی۔ اسٹیج کو پولیس کے