Shahryar (Akhlaq Mohammed Khan)
- 16 June 1936-13 February 2012
- Aonla, United Provinces, British India
Introduction
انہیں 1987 میں اپنے کام خوب کا در بند ہے کے لئے اردو میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا, اور انہوں نے 2008 میں جن پتھ ایوارڈ جیتا تھا اور اعلی ادبی ایوارڈ جیتنے والے چوتھے اردو شاعر بن گئے تھے. وہ جدید اردو شاعری کے بہترین پروموٹر کے طور پر مشہور ہیں.
فراق ساماں بہادر شاہ ظفر ایوارڈ.
ان کے مشہور کام درجزیل ہیں
1965 میں اسم-ای-اعظم.
1969 میں ساتواں در.
1978 میں ہجر کے موسم.
1987 میں خواب کی در بند ہیں.
نیند کی کرچیاں
بند دروازے کے ذریعے، نظموں کا ایک مجموعہ جسکا ترجمہ رخشندہ جلیل نے کیا.
اردو تنقید پر مغربی تنقید کا اثر، علی گڑھ.
2003 میں دھند کی روشنی، شہریار کی منتخب کردہ نظمیں.
Ghazal
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے سب کا احوال وہی ہے
دل چیز کیا ہے آپ مری جان لیجئے
دل چیز کیا ہے آپ مری جان لیجئے بس ایک بار میرا کہا مان لیجئے اس انجمن میں آپ کو آنا ہے بار بار دیوار
زندگی جب بھی تری بزم میں لاتی ہے ہمیں
زندگی جب بھی تری بزم میں لاتی ہے ہمیں یہ زمیں چاند سے بہتر نظر آتی ہے ہمیں سرخ پھولوں سے مہک اٹھتی ہیں دل
عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو
عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو ہر ایک نقش تمنا کا ہو گیا دھندلا ہر
ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں
ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں اک تم ہی نہیں تنہا الفت میں مری رسوا اس
یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے
یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے حد نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے ہر ایک جسم روح کے عذاب سے
زندگی جیسی توقع تھی نہیں کچھ کم ہے
زندگی جیسی توقع تھی نہیں کچھ کم ہے ہر گھڑی ہوتا ہے احساس کہیں کچھ کم ہے گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہو سکتی
دل میں رکھتا ہے نہ پلکوں پہ بٹھاتا ہے مجھے
دل میں رکھتا ہے نہ پلکوں پہ بٹھاتا ہے مجھے پھر بھی اک شخص میں کیا کیا نظر آتا ہے مجھے رات کا وقت ہے
شدید پیاس تھی پھر بھی چھوا نہ پانی کو
شدید پیاس تھی پھر بھی چھوا نہ پانی کو میں دیکھتا رہا دریا تری روانی کو سیاہ رات نے بے حال کر دیا مجھ کو
نظر جو کوئی بھی تجھ سا حسیں نہیں آتا
نظر جو کوئی بھی تجھ سا حسیں نہیں آتا کسی کو کیا مجھے خود بھی یقیں نہیں آتا ترا خیال بھی تیری طرح ستم گر
یہ کیا ہے محبت میں تو ایسا نہیں ہوتا
یہ کیا ہے محبت میں تو ایسا نہیں ہوتا میں تجھ سے جدا ہو کے بھی تنہا نہیں ہوتا اس موڑ سے آگے بھی کوئی
Nazm
خواب کا در بند ہے
میرے لیے رات نے آج فراہم کیا ایک نیا مرحلہ نیندوں سے خالی کیا اشکوں سے پھر بھر دیا کاسہ مری آنکھ کا اور کہا
چپکے سے ادھر آ جاؤ
دروازۂ جاں سے ہو کر چپکے سے ادھر آ جاؤ اس برف بھری بوری کو پیچھے کی طرف سرکاؤ ہر گھاؤ پہ بوسے چھڑکو ہر
رات جدائی کی رات
کٹتی نہیں سرد رات ڈھلتی نہیں زرد رات رات جدائی کی رات خالی گلاسوں کی سمت تکتی ہوئی آنکھ میں قطرۂ شبنم نہیں کون لہو
زوال کی حد
بوتل کے اندر کا جن نکلے تو اس سے پوچھیں جینے کا کیا ڈھنگ کریں کن سپنوں سے جنگ کریں کھولو سوڈا لاؤ گلاس دو
ایک اور سال گرہ
لو تیسواں سال بھی بیت گیا لو بال روپہلی ہونے لگے لو کاسۂ چشم ہوا خالی لو دل میں نہیں اب درد کوئی یہ تیس
تنہائی
اندھیری رات کی اس رہ گزر پر ہمارے ساتھ کوئی اور بھی تھا افق کی سمت وہ بھی تک رہا تھا اسے بھی کچھ دکھائی
تنبیہ
وہ جو آسماں پہ ستارہ ہے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لو اسے اپنے ہونٹوں سے چوم لو اسے اپنے ہاتھوں سے توڑ لو کہ
اپنی یاد میں
میں اپنے گھاؤ گن رہا ہوں دور تتلیوں کے ریشمی پروں کے نیلے پیلے رنگ اڑ رہے ہیں ہر طرف فرشتے آسمان سے اتر رہے
ایک اور موت
کٹ گیا دن ڈھلی شام شب آ گئی پھر زمیں اپنے محور سے ہٹنے لگی چاندنی کروٹیں پھر بدلنے لگی آہٹوں کے سسکتے ہوئے شور
زندہ رہنے کا یہ احساس
ریت مٹھی میں کبھی ٹھہری ہے پیاس سے اس کو علاقہ کیا ہے عمر کا کتنا بڑا حصہ گنوا بیٹھا میں جانتے بوجھتے کردار ڈرامے
وہ کون تھا
وہ کون تھا وہ کون تھا طلسم شہر آرزو جو توڑ کر چلا گیا ہر ایک تار روح کا جھنجھوڑ کر چلا گیا مجھے خلا
فرار
رات کا بیتنا دن کا آنا کون سی ایسی نئی بات ہے جس پر ہم سب اتنے افسردہ ہیں کھڑکی کھولو اس طرف سامنے دیکھو
Sher
جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا
جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا ترے لبوں پہ مرے لب ہوں ایسا کب ہوگا شہریار
شدید پیاس تھی پھر بھی چھوا نہ پانی کو
شدید پیاس تھی پھر بھی چھوا نہ پانی کو میں دیکھتا رہا دریا تری روانی کو شہریار
سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا
سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا یہی تو وقت ہے سورج ترے نکلنے کا شہریار
شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے شہریار
شام ہوتے ہی کھلی سڑکوں کی یاد آتی ہے
شام ہوتے ہی کھلی سڑکوں کی یاد آتی ہے سوچتا روز ہوں میں گھر سے نہیں نکلوں گا شہریار
کون سی بات ہے جو اس میں نہیں
کون سی بات ہے جو اس میں نہیں اس کو دیکھے مری نظر سے کوئی شہریار
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے شہریار
جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے
جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے زندگی روز نئے رنگ بدلتی کیوں ہے شہریار
کیا کوئی نئی بات نظر آتی ہے ہم میں
کیا کوئی نئی بات نظر آتی ہے ہم میں آئینہ ہمیں دیکھ کے حیران سا کیوں ہے شہریار
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے شہریار
ہے آج یہ گلہ کہ اکیلا ہے شہریارؔ
ہے آج یہ گلہ کہ اکیلا ہے شہریارؔ ترسو گے کل ہجوم میں تنہائی کے لئے شہریار
مرے سورج آ مرے جسم پہ اپنا سایہ کر
مرے سورج آ مرے جسم پہ اپنا سایہ کر بڑی تیز ہوا ہے سردی آج غضب کی ہے شہریار