Noon Meem Danish
- 09 April 1958
- Karachi, Sindh, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
دل کو تیرے دھیان میں رکھا
دل کو تیرے دھیان میں رکھا شور سونے مکان میں رکھا ہر طرف آئنہ بچھائے اور ایک چہرہ جہان میں رکھا ایک آنسو چھپایا مٹھی
یادیں پاگل کر دیتی ہیں
یادیں پاگل کر دیتی ہیں باتیں پاگل کر دیتی ہیں چہرہ ہوش اڑا دیتا ہے آنکھیں پاگل کر دیتی ہیں تنہا چلنے والوں کو یہ
گردش ساغر سبو کے درمیاں
گردش ساغر سبو کے درمیاں زندگی ہے ہاؤ ہو کے درمیاں زخم اور پوشاک بھی رکھے گئے آئنہ اور آب جو کے درمیاں تیسرا رستہ
ترا خیال بہت دیر تک نہیں رہتا
ترا خیال بہت دیر تک نہیں رہتا کوئی ملال بہت دیر تک نہیں رہتا اداس کرتی ہے اکثر تمہاری یاد مجھے مگر یہ حال بہت
گلیوں کی بس خاک اڑا کے جانا ہے
گلیوں کی بس خاک اڑا کے جانا ہے ہم کو بھی آواز لگا کے جانا ہے رستے میں دیوار ہے ٹوٹے خوابوں کی ہم کو
رات درپیش تھی مسافر کو
رات درپیش تھی مسافر کو نیند کیوں آ گئی مسافر کو کیا نگر ہے یہ دل دکھائی دے ہر طرف آگ سی مسافر کو کل
وہ کسی بھی عکس جمال میں نہیں آئے گا
وہ کسی بھی عکس جمال میں نہیں آئے گا وہ جواب ہے تو سوال میں نہیں آئے گا نہیں آئے گا وہ کسی بھی حرف
جہاں وہم و گماں ہو جائے گا کیا
جہاں وہم و گماں ہو جائے گا کیا یہاں سب کچھ دھواں ہو جائے گا کیا ستارے دھول اور مٹی بنیں گے سمندر آسماں ہو
خیال و خواب میں ہونا صدائے باد میں رہنا
خیال و خواب میں ہونا صدائے باد میں رہنا کسی کی آس میں جینا کسی کی یاد میں رہنا پر اسراری عجب سی ہے تری
ہجر کے موسم تنہائی کے دکھ دیکھے
ہجر کے موسم تنہائی کے دکھ دیکھے اک چہرے کے پیچھے کتنے دکھ دیکھے اک سناٹا پہروں خون رلاتا ہے اک آواز کی خاطر کیسے
دیکھے ہوئے کسی کو بہت دن گزر گئے
دیکھے ہوئے کسی کو بہت دن گزر گئے اس دل کی بے بسی کو بہت دن گزر گئے ہر شب چھتوں پہ چاند اترتا تو
کوئی سایا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے
کوئی سایا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے مر جاؤں گا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے سانولی رت میں خواب جلے تو آنکھ کھلی ہے میں
Nazm
بہت دن ہوئے ہیں
بہت دن ہوئے ہیں دنوں کی اداسی شبوں کی قیامت رفاقت کی وحشت جدائی کے صدمے مسرت کی خواہش سبھی ایک جیسے پرانے سے منظر
دروازے کے باہر
وقت ہے باہر کھڑا یہ کسے معلوم ہے دروازہ کھولیں کیا ہمارا منتظر ہو کون سا دکھ کونسی راحت نصابوں میں لکھی سچائی یا آنکھوں
مجھے اڑتے پرندے اچھے لگتے ہیں
مجھے اڑتے پرندے اچھے لگتے ہیں شرارت سے کبھی یہ آسماں کو چھو کر آتے ہیں کبھی بادل میں چھپتے ہیں ستاروں کے شناسا چاند
آدمی کو کتنا جینا چاہئے
آدمی کو کتنا جینا چاہئے دو برس دو سو برس یا چند سال بات اگر جینے کی ہے وہ بھی خالی ہاتھ خالی دل خوابوں
ہر روز ہم اپنے خوابوں کی توہین کریں
ہم روز ہم اپنے خوابوں کی توہین کریں وہ خواب جو اپنے پل پل کی اس راکھ سے ہم تعمیر کریں جب دل میں درد
کورا برتن
وہ راہ چلتے ہوئے ملی تھی وہ جس کے چشمے کے موٹے شیشوں پہ ذات کے دکھ کی گرد کی تہہ جمی ہوئی تھی وہ
کتا بھونکتا ہے
پرانے شہر کی ویراں گلی میں جب بھی آدھی رات ہوتی ہے تو کتا بھونکتا ہے کتا بھونکتا ہے ایک سایا سا ابھرتا ہے مرے
آنکھوں سے اوجھل دنیا کی ایک نظم
ہمیں کیا پتہ ہے یہ ممکن ہے پھول اور پتھر ہوا روشنی ریت پانی یہ دریا پہاڑ اور صحرا کا آپس میں رشتہ ہو پتھر
زندگی خواب میں رونما ہونے والا کوئی حادثہ تو نہیں ہے
زندگی خواب میں رونما ہونے والا کوئی حادثہ تو نہیں ہے کہ جس کے نہ ہونے اور ہونے کا احساس بھی صبح کی دھوپ میں
Sher
میں ریزہ ریزہ تو ہوتا ہوں ہر شکست کے بعد مگر نڈھال بہت دیر تک نہیں رہتا نون م دانش
یہاں کون تھا جو سلامتی سے گزر گیا یہاں کون ہے جو وبال میں نہیں آئے گا نون م دانش
جو بھی ہے وہ سب مٹی ہو جائے گا ہم کو بس اک خواب بچا کے جانا ہے نون م دانش
ہاں آدم کی نشانی ہے یہ انساں مگر یہ بے نشاں ہو جائے گا کیا نون م دانش
مدت ہوئی ہے ٹوٹ کے رویا نہیں ہوں میں اس چین کی گھڑی کو بہت دن گزر گئے نون م دانش
کبھی ویران رستوں پر کبھی تنہائی کی چپ میں وہ چہرہ بات کرتا ہے وہ آنکھیں یاد آتی ہیں نون م دانش
کسی کی یاد ہے الجھی ہوئی سانسوں کی ڈوری سے کسی کے ہجر میں ہے عرصۂ فریاد میں رہنا نون م دانش
خاک ہونے تلک مرے دل نے مجھ کو وہم و گمان میں رکھا نون م دانش
کتنی بے معنی سی ہے یہ زندگی خاموشی اور گفتگو کے درمیاں نون م دانش
اک صدا تھی کہ ہر گھڑی ہر پل جو بلاتی رہی مسافر کو نون م دانش
میں بھی اپنی ذات میں تنہا پھرتا ہوں تم نے بھی بے خواب رتوں کے دکھ دیکھے نون م دانش