Bulleh Shah
- 1680–1757
- Multan, Pakistan
Introduction
انہوں نے شاعری کے شعبے میں ایک بہت بڑی میراث چھوڑ دی ہے. اپنی شاعری میں ، انہوں نے مذہبی اصولوں پر تنقید کی اور عالمی سطح پر ضروریات کو نظرانداز کرنے پر سخت تنقید کی۔ دانشمندی کی مخالفت ‘ بغیر کسی عمل کے علم کی مخالفت ہے.
بلھے شاہ ایک مشہور پنجابی شاعر تھا جو سخی شاہ محمد درویش کا بیٹا تھا ، اپنے گھریلو معاملات کی وجہ سے اوچ گلیان گاؤں چھوڑ گیا تھا. اس کا اصل نام عبد اللہ تھا اور وہ لاہور میں پانڈک کے نام سے مشہور ضلع قصور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا تھا. مولوی گلم مرتضیٰ کی نگرانی میں قصور میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد. وہ لاہور گیا اور شاہ عنایت قادری کے ساتھ تربیت حاصل کی. اس وقت ، بلھے شاہ کی عمر چھ سال تھی اور اس نے ملکوال کے علاقے میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا. بعد میں شاہ عنایت نے انہیں اپنا خلیفہ منتخب کیا. وہ گاؤں میں مویشیوں کو کھانا بھی کھلاتے تھے. اس بارے میں کوئی مستند حوالہ نہیں ہے کہ شاہ محمد درویش کے پیش رو کہاں سے آئے تھے لیکن فقیر محمد فقیر کا کہنا ہے کہ بلھے شاہ، بخاری سادات کے گھر میں پیدا ہوا تھا. صوفی محمد درویش کا مقبرہ پانڈوکی کے گاؤں میں ہے جہاں بلھے شاہ کی وفات کی برسی کے موقع پر ہر سال ان کی عرس کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں. بلھے شاہ کو مشہور فارسی اور عربی کے استاد مولانا مرتضیٰ قصوری نے تعلیم دی. کہا جاتا ہے کہ وہ معروف کہانی “ہیر رانجھا” کے مصنف سید وارث شاہ کا اسکول فیلو تھا”. بلھے شاہ شادی نہیں کر پائے اور ساری زندگی تنہا رہے۔ پنجاب کے مشہور صوفیاء میں سے ایک، پنجابی تصوف میں اپنے کاموں کی وجہ سے انہوں نے اونچا مقام حاصل کیا. تصوف اور صوفی خیالات ان کی نظموں میں پائے جاتے ہیں. انکی قبر قصور میں ہے جہاں ہر سال عرس پر ایک میلہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
Kalaam
Doha
Kaafi
رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپے رانجھا ہوئی
رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپے رانجھا ہوئی سدو نی مینوں دھیدو رانجھا ہیر نا آکھو کوئی رانجھا میں وچ میں رانجے وچ ہور
حاجی لوک مکے نوں جاندے
حاجی لوک مکے نوں جاندے تھا رانجھا ماہی مکہ نی میں کملی ہاں میں اجلا منگ رانجے دی ہوئی آں میرا سبھے کردا دھکا نی
ہوری کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ
ہوری کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ نام نبیؐ کی رتن چڑھی بوند پڑی اللہ اللہ رنگ رنگیلی اوہی کھلاوے جو سکھی ہووے فنا فی
مینوں عشق ہلارے دیندا
مینوں عشق ہلارے دیندا مونہہ چڑھا آ یار بلیندا کی پچھدا ہیں کی ذات صفات میری اہو آدم والی ذات میری نحن اقرب دے وچ
راتیں جاگیں کریں عبادت
راتیں جاگیں کریں عبادت راتیں جاگن کتے تیتھوں اتے بھونکنوں بند مول نا ہندے جا روڑیں تے ستے تیتھوں اتے خسم آپنے دا در نا
ہن میں لکھیا سوہنا یار
جدوں احد اک اکلا سی نہ ظاہر کوئی تجلیٰ سی نہ رب رسول نہ اللہ سی نہ سی جبار تے نہ قہار بے چون و
لوکاں دے بھانے چاک چکیٹا ساڈا رب غفور
لوکاں دے بھانے چاک چکیٹا ساڈا رب غفور ماہی وے تیں ملی آں سبھ دکھ ہوون دور ملن دی خاطر چشماں بہندیاں سی نت جھور
پیا پیا کرتے ہمیں پیا ہوئے اب پیا کس نوں کہئے
پیا پیا کرتے ہمیں پیا ہوئے اب پیا کس نوں کہئے حجر وصل ہم دونوں چھوڑے اب کس کے ہو رہئے پیا پیا کرتے ہمیں
اس ٹونے نوں پڑھ پھوکانگی سورج اگن جلوانگی
اس ٹونے نوں پڑھ پھوکانگی سورج اگن جلوانگی ٹونے کامن کر کے نی میں پیارا یار مناوانگی انکھیاں کاجل کالے بادل بھواں تو آگ لگاوانگی
نی سائیو میں گئی گواچی
نی سائیو میں گئی گواچی کھول گھونگھٹ مکھ ناچی جت ول ویکھاں ات ول اوہی کسم اوسے دی ہور نا کوئی پیہونا ماکم پھر گئی
اٹھ جاگ گھراڑے مار نہیں
اٹھ جاگ گھراڑے مار نہیں اہ سون تیرے درکار نہیں اک روز جہانوں جان اے جا کبرے وچ سمانا اے ترا گوشت کیڑی آں کھانا
میرا رانجھا ہن کوئی ہور
میرا رانجھا ہن کوئی ہور تکھت منور بانگاں ملیاں تاں سونیاں تکھت لاہور عشق مارے ایویں پھردے جیوں جنگل وچ ڈھور رانجھا تکھت ہزارے دا