Insha Allah Khan
- 1752–1817
- Murshidabad, India
Introduction
Ghazal
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں بہت آگے گئے باقی جُو ہیں تیار بیٹھے ہیں نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری
اچھا جُو خفا ہم سے ہو تُم اے صنم اچھا
اچھا جُو خفا ہم سے ہو تُم اے صنم اچھا لو ہم بھی نہ بولیں گے خُدا کی قسم اچھا مشغول کیا چاہئے اِس دِل
ہے تیرا گال مال بوسے کا
ہے تیرا گال مال بوسے کا کیوں نہ کیجے سوال بوسے کا منہ لگاتے ہی ہونٹھ پر ترے پڑ گیا نقش لال بوسے کا زلف
مل مُجھ سے اے پری تُجھے قرآن کی قسم
مل مُجھ سے اے پری تُجھے قرآن کی قسم دیتا ہوں تُجھ کو تخت سلیمان کی قسم کر و بیوں کی تُجھ کو قسم اور
نیند مستوں کو کہاں اُور کدھر کا تکیہ
نیند مستوں کو کہاں اُور کدھر کا تکیہ خشت خم خانہ ہے یاں اپنے تُو سر کا تکیہ لخت دِل آ کہ مسافر سے ٹھہرتے
مُجھے کیوں نہ آوے ساقی نظر آفتاب الٹا
مُجھے کیوں نہ آوے ساقی نظر آفتاب الٹا کے پڑا ہے آج خم میں قدح شراب الٹا عجب الٹے ملک کہ ہیں اجی آپ بھی
چاہتا ہوں تُجھے نبیؐ کی قسم
چاہتا ہوں تُجھے نبیؐ کی قسم حضرت مرتضیٰ علی کی قسم مُجھے غمگیں نہ چھوڑ روتا آج تُجھے اپنی ہنسی خُوشی کی قسم صاف کہہ
تب سے عاشق ہیں ہم اے طفل پری وش ترے
تب سے عاشق ہیں ہم اے طفل پری وش ترے جب سے مکتب میں تُو کہتا تھا الف بے تے ثے یاد آتا ہے وہ
دیکھنا جب مُجھے کر شان یہ گالی دینا
دیکھنا جب مُجھے کر شان یہ گالی دینا کس سے تم سیکھے ہو ہر آن یہ گالی دینا اختلاط آپ سے اُور مُجھ سے کہاں
جو بات تُجھ سے چاہی ہے اپنا مزاج آج
جو بات تُجھ سے چاہی ہے اپنا مزاج آج قربان تری کل پہ نہ ٹال آج ، آج ، آج دہکی ہے آگ دل میں
گالی سہی ادا سہی چین جبیں سہی
گالی سہی ادا سہی چین جبیں سہی یہ سب سہی پر ایک نہیں کی نہیں سہی مرنا میرا جُو چاہے تُو لگ جا گلے سے
دل ستم زدہ بیتابیوں نے لوٹ لیا
دِل ستم زدہ بیتابیوں نے لوٹ لیا ہمارے قبلہ کو وہابیوں نے لوٹ لیا کہانی ایک سنائی جُو ہیر رانجھا کی تُو اہل درد کو
Sher
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں .بہت آگے گئے باقی جُو ہیں تیار بیٹھے ہیں انشا اللہ خاں
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی .تُجھے اٹکھیلیاں سُوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں انشا اللہ خاں
عجیب لطف کچھ آپس کی چھیڑ چھاڑ میں ہے
عجیب لطف کچھ آپس کی چھیڑ چھاڑ میں ہے .کہاں ملاپ میں وُہ بات جُو بگاڑ میں ہے انشا اللہ خاں
کیا ہنسی آتی ہے مجھ کو حضرت انسان پر
کیا ہنسی آتی ہے مُجھ کو حضرت انِسان پر .فعل بد خُود ہی کریں لعنت کریں شیطان پر انشا اللہ خاں
جذبہ عشق سلامت ہے تو انشا اللہ
جذبہ عشق سلامت ہے تُو انشا اللہ .کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے انشا اللہ خاں
گالی سہی ادا سہی چین جبیں سہی
گالی سہی ادا سہی چین جبیں سہی .یہ سب سہی پر ایک نہیں کی نہیں سہی انشا اللہ خاں
ہاں پھر تو کہیو ہائے وہ کس طرح ہوئے غضب
ہاں پھر تُو کہیو ہائے وُہ کس طرح ہوئے غضب .انشاؔ نہ چھیڑ مُجھ کو میری جان کی قسم انشا اللہ خاں
میں نے جو کچکچا کر کل ان کی ران کاٹی
میں نے جُو کچکچا کر کل اِن کی ران کاٹی .تو اِن نے کِس مزے سے مری زبان کاٹی انشا اللہ خاں
جی کی جی ہی میں رہی بات نہ ہونے پائی
جی کی جی ہی میں رہی بات نہ ہونے پائی .حیف کے اِس سے ملاقات نہ ہونے پائی انشا اللہ خاں
کر لیتا ہوں بند آنکھیں میں دیوار سے لگ کر
کر لیتَا ہوں بند آنکھیں میں دیوار سے لگ کر .بیٹھے ہے کسی سے جُو کوئی پیار سے لگ کر انشا اللہ خاں
کچھ اشارہ جو کیا ہم نے ملاقات کہ وقت
کچھ اشارہ جُو کیا ہم نے ملاقات کہ وقت .ٹال کر کہنے لگے دِن ہے ابِھی رات کہ وقت انشا اللہ خاں
یہ عجیب ماجرا ہے کے بروز عید قرباں
یہ عجیب ماجرا ہے کے برُوز عید قرباں .وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا انشا اللہ خاں
Rekhti
لہر میں چوٹی کے تیرے ڈر کے مارے کانپ کانپ
لہر میں چوٹی کے تیرے ڈر کے مارے کانپ کانپ چونک چونک اٹھتی ہوں میں راتوں کو کہہ کر سانپ سانپ نوج تم کوٹھے پر
آج وہ بات سہی جس میں تری کل کل جائے
آج وہ بات سہی جس میں تری کل کل جائے کیا کروں لیکن اگر کوئی مہینہ ٹل جائے یوں لگی کوسنے چوپڑ میں جو ہاری
بیگما میں جو بڑی ہوں تو بھلا تجھ کو کیا
بیگما میں جو بڑی ہوں تو بھلا تجھ کو کیا پہنے پوشاک زری ہوں تو بھلا تجھ کو کیا تو تو اوکٹی نہیں جائے گی
چوٹی پہ تری سانپ کی ہے لہر دوگانا
چوٹی پہ تری سانپ کی ہے لہر دوگانا کھاتی ہوں ترے واسطے میں زہر دوگانا چتون تری بس دیکھتے ہی یاد پڑی ہے دلی کی
ادھر آؤ نہ ستاؤ
ادھر آؤ نہ ستاؤ پاس اپنے نہ بلاؤ ہو جہاں خوش وہیں جاؤ چٹکیوں میں نہ اڑاؤ آگ دل میں نہ لگاؤ بس نہ انشاؔ
میں ترے صدقے گئی اے مری پیاری مت چیخ
میں ترے صدقے گئی اے مری پیاری مت چیخ مت جگا نیند بھرے لوگوں کو واری مت چیخ لگتی ہے چوٹ تو لگنے دے مسوس
تھام تھام اپنے کو رکھتی ہوں بہت سا لیکن
تھام تھام اپنے کو رکھتی ہوں بہت سا لیکن کیا کہوں تھم نہیں سکتا مرا اندر والا اپنے کوٹھے پہ کچھ اس ڈھب سے زفیلا
Qisse
شیطان کی دھولیں
ایک دن سید انشاء نواب آصف الدولہ صاحب کے ساتھ بیٹھے کھانا کھارہے تھے۔ گرمی سے گھبرا کردستار سر سے اتار کر رکھ دی تھی۔
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
جرأت نابینا تھے۔ ایک روز بیٹھے فکر سخن کررہے تھے کہ انشاءؔ آگئے۔ انہیں محو پایا تو پوچھا، ’’حضرت کس سوچ میں ہیں؟‘‘ جرأت نے
کتے کی قضائے حاجت
نواب آصف الدولہ ایک روز انشاءؔ کے ساتھ ہاتھی پر سوار لکھنؤ کے کسی محلے سے گزررہے تھے۔ راستے میں دیکھا کہ ایک کتا ایک