Rahat Indori
- 1 January 1950 - 11 August 2020
- Indore, Madhya Bharat, India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے ایک دیوانہ مسافر ہے مری آنکھوں میں وقت بے
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو راہ کے پتھر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں
ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے
ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے عمر
بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہیے
بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہیے میں پینا چاہتا ہوں پلا دینی چاہیے اللہ برکتوں سے نوازے گا عشق میں ہے جتنی پونجی پاس
تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے
تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے آتے جاتے ہیں کئی رنگ مرے چہرے پر
کہیں اکیلے میں مل کر جھنجھوڑ دوں گا اسے
کہیں اکیلے میں مل کر جھنجھوڑ دوں گا اسے جہاں جہاں سے وہ ٹوٹا ہے جوڑ دوں گا اسے مجھے وہ چھوڑ گیا یہ کمال
صرف خنجر ہی نہیں آنکھوں میں پانی چاہئے
صرف خنجر ہی نہیں آنکھوں میں پانی چاہئے اے خدا دشمن بھی مجھ کو خاندانی چاہئے شہر کی ساری الف لیلائیں بوڑھی ہو چکیں شاہزادے
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا میں جانتا تھا کہ زہریلا سانپ بن
اجنبی خواہشیں سینے میں دبا بھی نہ سکوں
اجنبی خواہشیں سینے میں دبا بھی نہ سکوں ایسے ضدی ہیں پرندے کہ اڑا بھی نہ سکوں پھونک ڈالوں گا کسی روز میں دل کی
میں لاکھ کہہ دوں کہ آکاش ہوں زمیں ہوں میں
میں لاکھ کہہ دوں کہ آکاش ہوں زمیں ہوں میں مگر اسے تو خبر ہے کہ کچھ نہیں ہوں میں عجیب لوگ ہیں میری تلاش
لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں
لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں مے کدہ ظرف کے معیار
بلاتی ہے مگر جانے کا نئیں
بلاتی ہے مگر جانے کا نئیں وہ دنیا ہے ادھر جانے کا نئیں ستارے نوچ کر لے جاؤں گا میں خالی ہاتھ گھر جانے کا
Sher
روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے راحت اندوری
دوستی جب کسی سے کی جائے
دوستی جب کسی سے کی جائے دشمنوں کی بھی رائے لی جائے راحت اندوری
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے راحت اندوری
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے راحت اندوری
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا راحت اندوری
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے راحت اندوری
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو راحت اندوری
نئے کردار آتے جا رہے ہیں
نئے کردار آتے جا رہے ہیں مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے راحت اندوری
گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا
گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا گھر کے اندر دنیا داری رہتی ہے راحت اندوری
بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہئے
بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہئے میں پینا چاہتا ہوں پلا دینی چاہئے راحت اندوری
مری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے
مری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے مرے بھائی مرے حصے کی زمیں تو رکھ لے راحت اندوری
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے راحت اندوری