Akhtar Raza Saleemi
- 16 June 1974
- Kekot, Haripur, Khyber Pakhtunkhwa, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
تمہارے ہونے کا شاید سراغ پانے لگے
تمہارے ہونے کا شاید سراغ پانے لگے کنار چشم کئی خواب سر اٹھانے لگے پلک جھپکنے میں گزرے کسی فلک سے ہم کسی گلی سے
اندیشے مجھے نگل رہے ہیں
اندیشے مجھے نگل رہے ہیں کیوں درد ہی پھول پھل رہے ہیں دیکھو مری آنکھ بجھ رہی ہے دیکھو مرے خواب جل رہے ہیں اک
ہمارے جسم اگر روشنی میں ڈھل جائیں
ہمارے جسم اگر روشنی میں ڈھل جائیں تصورات زمان و مکاں بدل جائیں ہمارے بیچ ہمیں ڈھونڈتے پھریں یہ لوگ ہم اپنے آپ سے آگے
وہ حسن سبز جو اترا نہیں ہے ڈالی پر
وہ حسن سبز جو اترا نہیں ہے ڈالی پر فریفتہ ہے کسی پھول چننے والی پر میں ہل چلاتے ہوئے جس کو سوچا کرتا تھا
فرات چشم میں اک آگ سی لگاتا ہوا
فرات چشم میں اک آگ سی لگاتا ہوا نکل رہا ہے کوئی اشک مسکراتا ہوا پس گمان کئی واہمے جھپٹتے ہوئے سر یقین کوئی خواب
دل و نگاہ پہ طاری رہے فسوں اس کا
دل و نگاہ پہ طاری رہے فسوں اس کا تمہارا ہو کے بھی ممکن ہے میں رہوں اس کا زمیں کی خاک تو کب کی
بتائیں کیا کہ کہاں پر مکان ہوتے تھے
بتائیں کیا کہ کہاں پر مکان ہوتے تھے وہاں نہیں ہیں جہاں پر مکان ہوتے تھے سنا گیا ہے یہاں شہر بس رہا تھا کوئی
وہ بھی کیا دن تھے کیا زمانے تھے
وہ بھی کیا دن تھے کیا زمانے تھے روز اک خواب دیکھ لیتے تھے اب زمیں بھی جگہ نہیں دیتی ہم کبھی آسماں پہ رہتے
خبر نہیں تھی کسی کو کہاں کہاں کوئی ہے
خبر نہیں تھی کسی کو کہاں کہاں کوئی ہے ہر اک طرف سے صدا آ رہی تھی یاں کوئی ہے یہیں کہیں پہ کوئی شہر
Nazm
ایک کہانی
پہاڑوں سے گھری وادی میں، پتھر سے بنی اک چار دیواری اور اس دیوار کے اندر کئی کمرے ہزاروں سال کی ویرانیاں اوڑھے کھڑے ہیں
Sher
پہلے تراشا کانچ سے اس نے مرا وجود پھر شہر بھر کے ہاتھ میں پتھر تھما دیئے اختر رضا سلیمی
تجھے خبر نہیں اس بات کی ابھی شاید کہ تیرا ہو تو گیا ہوں مگر میں ہوں اس کا اختر رضا سلیمی
آئے عدم سے ایک جھلک دیکھنے تری رکھا ہی کیا تھا ورنہ جہان خراب میں اختر رضا سلیمی
سنا گیا ہے یہاں شہر بس رہا تھا کوئی کہا گیا ہے یہاں پر مکان ہوتے تھے اختر رضا سلیمی
گزر رہا ہوں کسی جنت جمال سے میں گناہ کرتا ہوا نیکیاں کماتا ہوا اختر رضا سلیمی
تمہارے ہونے کا شاید سراغ پانے لگے کنار چشم کئی خواب سر اٹھانے لگے اختر رضا سلیمی
اب زمیں بھی جگہ نہیں دیتی ہم کبھی آسماں پہ رہتے تھے اختر رضا سلیمی
خواب گلیوں میں پھر رہے تھے اور لوگ اپنے گھروں میں سوئے تھے اختر رضا سلیمی
اک آگ ہماری منتظر ہے اک آگ سے ہم نکل رہے ہیں اختر رضا سلیمی
یہیں کہیں پہ کوئی شہر بس رہا تھا ابھی تلاش کیجئے اس کا اگر نشاں کوئی ہے اختر رضا سلیمی
جسموں سے نکل رہے ہیں سائے اور روشنی کو نگل رہے ہیں اختر رضا سلیمی
ہم آئے روز نیا خواب دیکھتے ہیں مگر یہ لوگ وہ نہیں جو خواب سے بہل جائیں اختر رضا سلیمی