Nushoor Wahidi
- 15 April 1912-04 Jan 1983
- Sheikhpur, Ballia District, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Nushoor Wahidi was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
کبھی جھوٹے سہارے غم میں راس آیا نہیں کرتے
کبھی جھوٹے سہارے غم میں راس آیا نہیں کرتے یہ بادل اڑ کے آتے ہیں مگر سایا نہیں کرتے یہی کانٹے تو کچھ خوددار ہیں
نئی دنیا مجسم دل کشی معلوم ہوتی ہے
نئی دنیا مجسم دل کشی معلوم ہوتی ہے مگر اس حسن میں دل کی کمی معلوم ہوتی ہے حجابوں میں نسیم زندگی معلوم ہوتی ہے
ملاحت جوانی تبسم اشارا
ملاحت جوانی تبسم اشارا انہیں کافروں نے تو شاعر کو مارا محبت بھی ظالم عجب بے بسی ہے نہ وہ ہی ہمارے نہ دل ہی
وقت کا قافلہ آتا ہے گزر جاتا ہے
وقت کا قافلہ آتا ہے گزر جاتا ہے آدمی اپنی ہی منزل میں ٹھہر جاتا ہے ایک بگڑی ہوئی قسمت پہ نہ ہنسنا اے دوست
دل ہے کہ محبت میں اپنا نہ پرایا ہے
دل ہے کہ محبت میں اپنا نہ پرایا ہے کچھ سوچ کے اس نے بھی دیوانہ بنایا ہے جو وقت کہ گزرا ہے جذبات کے
ہاتھ سے دنیا نکلتی جائے گی
ہاتھ سے دنیا نکلتی جائے گی اور دنیا ہاتھ ملتی جائے گی حسن کی رنگت بدلتی جائے گی یہ شب مہتاب ڈھلتی جائے گی منقلب
بھلا کب دیکھ سکتا ہوں کہ غم ناکام ہو جائے
بھلا کب دیکھ سکتا ہوں کہ غم ناکام ہو جائے جو آرام دل و جاں ہے وہ بے آرام ہو جائے محبت کیا اگر یوں
اس دل کی مصیبت کون سنے جو غم کے مقابل آ جائے
اس دل کی مصیبت کون سنے جو غم کے مقابل آ جائے کس نے یہ کہا تھا تنکے سے وہ بجلی سے ٹکرا جائے دنیا
یوں ہی ٹھہر ٹھہر کے میں روتا چلا گیا
یوں ہی ٹھہر ٹھہر کے میں روتا چلا گیا موتی سنبھل سنبھل کے پروتا چلا گیا سانچوں میں حسن و نور کے ڈھلتا گیا شباب
ہزار شمع فروزاں ہو روشنی کے لیے
ہزار شمع فروزاں ہو روشنی کے لیے نظر نہیں تو اندھیرا ہے آدمی کے لیے تعلقات کی دنیا بھی آدمی کے لیے اک اجنبی سا
دھڑکنیں دل کی گنے خوں میں روانی مانگے
دھڑکنیں دل کی گنے خوں میں روانی مانگے زندگی عشق کی اے دوست جوانی مانگے پیش کر داغ اگر دل پہ کوئی کھایا ہو عشق
یاد آتی رہی بھلا نہ سکے
یاد آتی رہی بھلا نہ سکے شمع جلتی رہی بجھا نہ سکے چاند تارے گل و چمن مل کر دل کی اک داستاں سنا نہ
Nazm
مہاتما گاندھی
شب ایشیا کے اندھیرے میں سر راہ جس کی تھی روشنی وہ گوہر کسی نے چھپا لیا وہ دیا کسی نے بجھا دیا جو شہید
ناداروں کی عید
زردار نمازی عید کے دن کپڑوں میں چمکتے جاتے ہیں نادار مسلماں مسجد میں جاتے بھی ہوئی شرماتے ہیں ملبوس پریشاں دل غمگیں افلاس کے
میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں
یہ گاؤں کا منظر سناٹا اور شام کی دھندلی تاریکی اک شام بہت رنگین مگر مفلس کی نگاہوں میں پھیکی دھرتی پہ یہ پانی سونے
جلوۂ سحر
تمام اوراق شبنمستان سحر کی کرنوں سے جگمگائے طلوع ہوتی ہے صبح جیسے کلی تمنا کی مسکرائے کہیں درختوں میں غول چڑیا کا بیٹھ کر
جب سے کہ محبت ہوئی پیارے ہیں یہ آنسو
جب سے کہ محبت ہوئی پیارے ہیں یہ آنسو جیسے کہ میری آنکھ کے تارے ہیں یہ آنسو کہتے ہو کہ للہ اب آنسو نہ
ساون
کوئل کی سریلی تانوں پر تھم تھم کے پپیہا گاتا ہے حل ہو کے ہوا کی لہروں میں ساون کا مہینہ آتا ہے ٹھنڈی پروا
Sher
شاعری کی راہ میں کرتے ہوئے روشن چراغ
شاعری کی راہ میں کرتے ہوئے روشن چراغ اے شفاؔ ہم بھی مقام زندگی تک آ گئے شفا گوالیاری
جس کی قسمت میں غم پرستی ہے
جس کی قسمت میں غم پرستی ہے بس وہی کامیاب ہستی ہے شفا گوالیاری
وہ جب دیکھتے ہیں کبھی میری جانب
وہ جب دیکھتے ہیں کبھی میری جانب تو میں جانب آسماں دیکھتا ہوں شفا گوالیاری
انجام وفا یہ ہے جس نے بھی محبت کی
انجام وفا یہ ہے جس نے بھی محبت کی مرنے کی دعا مانگی جینے کی سزا پائی نشور واحدی
دیا خاموش ہے لیکن کسی کا دل تو جلتا ہے
دیا خاموش ہے لیکن کسی کا دل تو جلتا ہے چلے آؤ جہاں تک روشنی معلوم ہوتی ہے نشور واحدی
میں ابھی سے کس طرح ان کو بے وفا کہوں
میں ابھی سے کس طرح ان کو بے وفا کہوں منزلوں کی بات ہے راستے میں کیا کہوں نشور واحدی
اک نظر کا فسانہ ہے دنیا
اک نظر کا فسانہ ہے دنیا سو کہانی ہے اک کہانی سے نشور واحدی
سرک کر آ گئیں زلفیں جو ان مخمور آنکھوں تک
سرک کر آ گئیں زلفیں جو ان مخمور آنکھوں تک میں یہ سمجھا کہ مے خانے پہ بدلی چھائی جاتی ہے نشور واحدی
میری آنکھوں میں ہیں آنسو تیرے دامن میں بہار
میری آنکھوں میں ہیں آنسو تیرے دامن میں بہار گل بنا سکتا ہے تو شبنم بنا سکتا ہوں میں نشور واحدی
ہزار شمع فروزاں ہو روشنی کے لیے
ہزار شمع فروزاں ہو روشنی کے لیے نظر نہیں تو اندھیرا ہے آدمی کے لیے نشور واحدی
قدم مے خانہ میں رکھنا بھی کار پختہ کاراں ہے
قدم مے خانہ میں رکھنا بھی کار پختہ کاراں ہے جو پیمانہ اٹھاتے ہیں وہ تھرایا نہیں کرتے نشور واحدی
بڑی حسرت سے انساں بچپنے کو یاد کرتا ہے
بڑی حسرت سے انساں بچپنے کو یاد کرتا ہے یہ پھل پک کر دوبارہ چاہتا ہے خام ہو جائے نشور واحدی