Nasir Kazmi
- 8 December 1925-2 March 1972
- Pakistan
Introduction
Ghazal
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست تُو مصیبت میں عجب یاد آیا
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی کچھ تُو نازک مزاج ہیں ہم بھی اور یہ چوٹ بھی
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں آج دیکھا ہے ، تجھ کو دیر کے بعد آج کا
اپنی دھن میں رہتا ہوں
اپنی دھن میں رہتا ہوں میں بھی ترے جیسا ہوں او پچھلی رت کہ ساتھی اب کہ برس میں تنہا ہوں تیری گلی میں سارا
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ، اور بال بناؤں کس کہ لیے
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ، اور بال بناؤں کس کہ لیے وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا ، میں باہر جاؤں کس
تیرے آنے کا دھوکا سا رہا ہے
تیرے آنے کا دھوکا سا رہا ہے دیا سا رات بھر جلتا رہا ہے عجب ہے ، رات سے آنکھوں کا عالم یہ دریا رات
دیار دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
دیار دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا ملا نہیں تو کیا ہوا ، وہ شکل تو دکھا گیا وہ دوستی تو خیر اب
غم ہے یا خوشی ہے تُو
غم ہے یا خوشی ہے تُو میری زندگی ہے تُو آفتوں کہ دور میں چین کی گھڑی ہے تُو میری رات کا چراغ میری نیند
گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ عجیب مانوس اجنبی تھا ، مجھے تو حیران کر گیا وہ بس ایک
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی برہم ہوئی ہے ، یوں بھی طبیعت کبھی کبھی اے دل کسے نصیب یہ توفیق اضطراب ملتی
دل میں اور تُو کیا رکھا ہے
دل میں اور تُو کیا رکھا ہے تیرا درد چھپا رکھا ہے اتنے دکھوں کی تیز ہوا میں دل کا دیپ جلا رکھا ہے دھوپ
وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
وہ دل نواز ہے ، لیکن نظر شناس نہیں میرا علاج میرے چارہ گر کے پاس نہیں تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر
Sher
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
دِل دھڑکنے کا سبب یاد آیا .وُہ تیری یاد تھی اب یاد آیا ناصر کاظمی
اے دوست ہم نے ترک محبت کہ باوجود
اے دُوست ہم نے ترک مُحبت کہ باوجود .محسوس کی ہے تری ضرورت کبھی کبھی ناصر کاظمی
آج دیکھا ہے تُجھ کو دیر کہ بعد
آج دیکھا ہے تُجھ کو دیر کہ بعد .آج کا دِن گزر نہ جائے کہیں ناصر کاظمی
وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
وُہ کوئی دُوست تھا اچھے دنوں کا .جُو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے ناصر کاظمی
تری مجبوریاں درست مگر
تری مجبوریاں درست مگر .تُو نے وعدہ کیا تھا یاد تُو کر ناصر کاظمی
ذرا سی بات سہی ترا یاد آ جانا
ذرا سی بات سہی ترا یاد آ جانا .ذرا سی بات بہت دیر تک رُلاتی تھی ناصر کاظمی
دائم آباد رہے گی دنیا
دائم آباد رہے گی دنیا .ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا ناصر کاظمی
کون اچھا ہے اس زمانے میں
کون اچھا ہے اِس زمانے میں .کیوں کسی کو بُرا کہے کوئی ناصر کاظمی
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
بھری دُنیا میں جی نہیں لگتا .جانے کِس چیز کی کمی ہے ابھی ناصر کاظمی
اس قدر رویا ہوں تری یاد میں
اس قدر رویا ہوں تری یاد میں .آئینے آنکھوں کہ دھندلے ہو گئے ناصر کاظمی
یاد آئی وہ پہلی بارش
یاد آئی وہ پہلی بارش .جب تُجھے ایک نظر دیکھا تھا ناصر کاظمی
وہ مے کدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اڑانے والا
وُہ مے کدے کو جگانے والا وُہ رات کی نیند اڑانے والا .یہ آج کیا اس کہ جی میں آئی کے شام ہوتے ہی گھر