Qayem Chandpuri
- 1722-1793
- Chandpur, India
Introduction
Ghazal
دل پا کہ اس کی زلف میں آرام رہ گیا
دل پا کہ اس کی زلف میں آرام رہ گیا درویش جس جگہ کہ ہوئی شام رہ گیا جھگڑے میں ہم مبادی کہ یاں تک
اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا
اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا دریا ہی پھر تُو نام ہے ہر اِک حباب کا کیوں چھوڑتے ہو درد تہ جام
دل میرا دیکھ دیکھ جلتا ہے
دل میرا دیکھ دیکھ جلتا ہے شمع کا کس پہ دل پگھلتا ہے ہم نشیں ذکر یار کر کے کچھ آج اس حکایت سے جی
یُوں ہی رنجش ہو اُور گلا بھی یوں ہی
یُوں ہی رنجش ہو اُور گلا بھی یوں ہی ہو جے ہر بات پر خفا بھی یُوں ہی کچھ نہ ہم کو ہی بھا گیا
قتل پہ ترے مُجھے کد چاہئے
قتل پہ ترے مُجھے کد چاہئے خوب ہے یہ اپنے کا بد چاہئے زلف کہ کوچوں کی درازی نہ پُوچھ چلنے کو واں عمر ابد
نہ پُوچھو کے قائمؔ کا کیا حال ہے
نہ پُوچھو کے قائمؔ کا کیا حال ہے کچھ اِک ڈھیر ہڈیوں کا یا کھال ہے جُو بیٹھے تو ہے روئے قالیں کا نقش کھڑا
ہر چند دکھ دہی سے زمانے کو عشق ہے
ہر چند دکھ دہی سے زمانے کو عشق ہے لیکن میرے بھی تاب کہ لانے کو عشق ہے آشفتہ سر ہیں یاں دل صد چاک
زاہد در مسجد پہ خرابات کی تُو نے
زاہد در مسجد پہ خرابات کی تُو نے جی بھی یوں ہی چاہے تھا کرامات کی تُو نے جانے دے بس اب یار کے یہ
میرا جی گو تُجھے پیارا نہیں ہے
میرا جی گو تُجھے پیارا نہیں ہے پر اتنا بھی تو ناکارا نہیں ہے ہیں اکثر خوب رو اوباش لیکن کوئی تُجھ سا تُو آوارا
گہ پیر شیخ گاہ مرید مغاں رہے
گہ پیر شیخ گاہ مرید مغاں رہے اب تک تُو آبرو سے نبھی ہے جہاں رہے دنیا میں ہم رہے تُو کئی دن پہ اس
آؤ کچھ شغل کریں بیٹھے ہیں عریاں اتنے
آؤ کچھ شغل کریں بیٹھے ہیں عریاں اتنے پھاڑیں سینہ ہی گو ہاتھ آئے گریباں اتنے آہ کوئی جُو اسے آن کہ سمجھاتا ہو دیکھتے
آج جی میں ہے کے کھل کر مے پرستی کیجئے
آج جی میں ہے کے کھل کر مے پرستی کیجئے خوب سی مے پیجئے اُور دیر مستی کیجئے زہد خشک آخر کہاں تک مایۂ تر
Sher
دنیا میں ہم رہے تو کئی دن پہ اس طرح
دنیا میں ہم رہے تو کئی دن پہ اس طرح دشمن کے گھر میں جیسے کوئی میہماں رہے قائم چاند پوری
کوئی دن آگے بھی زاہد عجب زمانہ تھا
کوئی دن آگے بھی زاہد عجب زمانہ تھا ہر اک محلہ کی مسجد شراب خانہ تھا قائم چاند پوری
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا قائم چاند پوری
دل سے بس ہاتھ اٹھا تو اب اے عشق
دل سے بس ہاتھ اٹھا تو اب اے عشق وہ ویران پر خراج نہیں قائم چاند پوری
آپ جو کچھ قرار کرتے ہیں
آپ جو کچھ قرار کرتے ہیں کہئے ہم اعتبار کرتے ہیں قائم چاند پوری
قائمؔ یہ جی میں ہے کہ تقید سے شیخ کی
قائمؔ یہ جی میں ہے کہ تقید سے شیخ کی اب کے جو میں نماز کروں بے وضو کروں قائم چاند پوری
میں مر چکا ہوں پہ تیرے ہی دیکھنے کے لیے
میں مر چکا ہوں پہ تیرے ہی دیکھنے کے لیے حباب وار تنک دم رہا ہے آنکھوں میں قائم چاند پوری
دل پا کے اس کی زلف میں آرام رہ گیا
دل پا کے اس کی زلف میں آرام رہ گیا درویش جس جگہ کہ ہوئی شام رہ گیا قائم چاند پوری
ظالم تو میری سادہ دلی پر تو رحم کر
ظالم تو میری سادہ دلی پر تو رحم کر روٹھا تھا تجھ سے آپ ہی اور آپ من گیا قائم چاند پوری
میں کن آنکھوں سے یہ دیکھوں کہ سایہ ساتھ ہو تیرے
میں کن آنکھوں سے یہ دیکھوں کہ سایہ ساتھ ہو تیرے مجھے چلنے دے آگے یا ٹک اس کو پیشتر لے جا قائم چاند پوری
کس بات پر تری میں کروں اعتبار ہائے
کس بات پر تری میں کروں اعتبار ہائے اقرار یک طرف ہے تو انکار یک طرف قائم چاند پوری
کب میں کہتا ہوں کہ تیرا میں گنہ گار نہ تھا
کب میں کہتا ہوں کہ تیرا میں گنہ گار نہ تھا لیکن اتنی تو عقوبت کا سزا وار نہ تھا قائم چاند پوری
Qita
میں کہا خلق تمہاری جو کمر کہتی ہے
میں کہا خلق تمہاری جو کمر کہتی ہے تم بھی اس کا کہیں کچھ ذکر و بیاں سنتے ہو ہنس کے یوں کہنے لگا خیر