Rahi Masoom Raza
- 01 September 1927-15 March 1992
- Ghazipur, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Rahi Masoom Raza was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
ہم تو ہیں پردیس میں دیس میں نکلا ہوگا چاند
ہم تو ہیں پردیس میں دیس میں نکلا ہوگا چاند اپنی رات کی چھت پر کتنا تنہا ہوگا چاند جن آنکھوں میں کاجل بن کر
جن سے ہم چھوٹ گئے اب وہ جہاں کیسے ہیں
جن سے ہم چھوٹ گئے اب وہ جہاں کیسے ہیں شاخ گل کیسی ہے خوشبو کے مکاں کیسے ہیں اے صبا تو تو ادھر ہی
اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی
اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی ہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی دامن موج صبا خالی ہوا بوئے گل دشت وفا میں
لوگ یک رنگئ وحشت سے بھی اکتائے ہیں
لوگ یک رنگئ وحشت سے بھی اکتائے ہیں ہم بیاباں سے یہی ایک خبر لائے ہیں پیاس بنیاد ہے جینے کی بجھا لیں کیسے ہم
دلوں کی راہ پر آخر غبار سا کیوں ہے
دلوں کی راہ پر آخر غبار سا کیوں ہے تھکا تھکا مری منزل کا راستا کیوں ہے سوال کر دیا تشنہ لبی نے ساغر سے
راستے اپنی نظر بدلا کئے
راستے اپنی نظر بدلا کئے ہم تمہارا راستہ دیکھا کئے اہل دل صحرا میں گم ہوتے رہے زندگی بیٹھی رہی پردہ کئے اہتمام دار و
موج ہوا کی زنجیریں پہنیں گے دھوم مچائیں گے
موج ہوا کی زنجیریں پہنیں گے دھوم مچائیں گے تنہائی کو گیت میں ڈھالیں گے گیتوں کو گائیں گے کندھے ٹوٹ رہے ہیں صحرا کی
ہم کیا جانیں قصہ کیا ہے ہم ٹھہرے دیوانے لوگ
ہم کیا جانیں قصہ کیا ہے ہم ٹھہرے دیوانے لوگ اس بستی کے بازاروں میں روز کہیں افسانے لوگ یادوں سے بچنا مشکل ہے ان
اے آوارہ یادو پھر یہ فرصت کے لمحات کہاں
اے آوارہ یادو پھر یہ فرصت کے لمحات کہاں ہم نے تو صحرا میں بسر کی تم نے گزاری رات کہاں میری آبلہ پائی ان
جتنے وحشی ہیں چلے جاتے ہیں صحرا کی طرف
جتنے وحشی ہیں چلے جاتے ہیں صحرا کی طرف کوئی جاتا ہی نہیں خیمۂ لیلےٰ کی طرف ہم حریفوں کی تمنا میں مرے جاتے ہیں
رنگ ہوا سے چھوٹ رہا ہے موسم کیف و مستی ہے
رنگ ہوا سے چھوٹ رہا ہے موسم کیف و مستی ہے پھر بھی یہاں سے حد نظر تک پیاسوں کی اک بستی ہے دل جیسا
Nazm
چاند اور چکور
تھی اک ایسی رات کہ ہم دونوں تنہا تھے چاند بھی ہم بھی چاند یہ بولا دیوانے آ بات کریں کچھ ہجر کی رات بہت
چاند کی بڑھیا
ماں سے اک بچے نے پوچھا چاند میں یہ دھبا کیسا ہے ماں یہ بولی چندا بیٹے جس کو تم دھبا کہتے ہو وہ تو
خواب
آؤ واپس چلیں رات کے راستے پر وہاں نیند کی بستیاں تھیں جہاں خاک چھانیں کوئی خواب ڈھونڈیں کہ سورج کے رستے کا رخت سفر
تشبیب
تجھ کو چاند نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ چاند تو اس دھرتی کے چار طرف ناچا کرتا ہے میں البتہ دیوانہ ہوں تیرے گرد پھرا
تنہائی
آج اپنے کمرے میں کس قدر اکیلا ہوں شام کا دھندھلکا ہے سوچتا ہوں گن ڈالوں دوستوں کے ناخن سے کتنے زخم کھائے ہیں ان
ایک نظم صبح کے انتظار میں
کٹ گئی رات مگر رات ابھی باقی ہے حسرت دید ابھی زندہ ہے دل دھڑکتا ہے ابھی شوق ملاقات ابھی زندہ ہے دل کے صحرائے
تلخ وترش
کیوں مری تلخ نوائی سے خفا ہوتے ہو زہر ہی مجھ کو ملا زہر پیا ہے میں نے کوئی اس دشت جنوں میں مری وحشت
میں اک پھیری والا
میں اک پھیری والا بیچوں یادیں سستی مہنگی سچی جھوٹی اجلی میلی رنگ برنگی یادیں ہونٹ کے آنسو آنکھوں کی مسکان ہری فریادیں میں اک
چور
سو گئی رات بہت دیر ہوئی تھک کے لیٹی تھی کسی راہ گزر پر کسی کمرے کسی ویرانے میں کسی مسجد کسی مے خانہ میں
ایک منظر
بانس کے جھنڈ میں چاندنی جب دبے پاؤں داخل ہوئی پتیوں کے لحافوں میں دبکی ہوئی سو رہی تھی ہوا جاگ اٹھی اک ذرا ہٹ
میں اور وہ دوسرا آدمی
جاؤ جاؤ مجھے نیند آئی ہے سونے دو مجھے دن گزر جاتا ہے لفظوں کا تعاقب کرتے اور جب رات کو تھک ہار کے گر
درد تنہائی کا
نیم کے پیڑ میں اٹکا ہوا چاند نیم کے پیڑ سے چھن چھن کے برستا ہوا درد درد یادوں بھری تنہائی کا درد ان یادوں
Sher
اے صبا تو تو ادھر ہی سے گزرتی ہوگی
اے صبا تو تو ادھر ہی سے گزرتی ہوگی اس گلی میں مرے پیروں کے نشاں کیسے ہیں راہی معصوم رضا
ہائے رے وحشت کہ تیرے شہر کا
ہائے رے وحشت کہ تیرے شہر کا ہم صبا سے راستہ پوچھا کئے راہی معصوم رضا
اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی
اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی ہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی راہی معصوم رضا
یہ چراغ جیسے لمحے کہیں رائیگاں نہ جائیں
یہ چراغ جیسے لمحے کہیں رائیگاں نہ جائیں کوئی خواب دیکھ ڈالو کوئی انقلاب لاؤ راہی معصوم رضا
زندگی ڈھونڈھ لے تو بھی کسی دیوانے کو
زندگی ڈھونڈھ لے تو بھی کسی دیوانے کو اس کے گیسو تو مرے پیار نے سلجھائے ہیں راہی معصوم رضا
ہاں انہیں لوگوں سے دنیا میں شکایت ہے ہمیں
ہاں انہیں لوگوں سے دنیا میں شکایت ہے ہمیں ہاں وہی لوگ جو اکثر ہمیں یاد آئے ہیں راہی معصوم رضا
دل کی کھیتی سوکھ رہی ہے کیسی یہ برسات ہوئی
دل کی کھیتی سوکھ رہی ہے کیسی یہ برسات ہوئی خوابوں کے بادل آتے ہیں لیکن آگ برستی ہے راہی معصوم رضا
Article
پھرتا ہے فلک برسوں
ہر بڑے شاعر کی طرح میر بہ یک وقت پبلک سکٹر کے شاعر بھی ہیں اور پرائیوٹ سکٹر کے بھی۔ مجھے ان شاعروں میں کوئی