Asrar Ul Haq Majaz
- 19 October 1911-5 December 1955
- Rudauli, United Provinces of Agra and Oudh, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Asrar Ul Haq Majaz was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
حسن کو بے حجاب ہونا تھا
حسن کو بے حجاب ہونا تھا شوق کو کامیاب ہونا تھا ہجر میں کیف اضطراب نہ پوچھ خون دل بھی شراب ہونا تھا تیرے جلووں
جنون شوق اب بھی کم نہیں ہے
جنون شوق اب بھی کم نہیں ہے مگر وہ آج بھی برہم نہیں ہے بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا تری زلفوں کا پیچ و
تسکین دل محزوں نہ ہوئی وہ سعئ کرم فرما بھی گئے
تسکین دل محزوں نہ ہوئی وہ سعئ کرم فرما بھی گئے اس سعئ کرم کو کیا کہیے بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے ہم عرض
کمال عشق ہے دیوانہ ہو گیا ہوں میں
کمال عشق ہے دیوانہ ہو گیا ہوں میں یہ کس کے ہاتھ سے دامن چھڑا رہا ہوں میں تمہیں تو ہو جسے کہتی ہے ناخدا
خود دل میں رہ کے آنکھ سے پردا کرے کوئی
خود دل میں رہ کے آنکھ سے پردا کرے کوئی ہاں لطف جب ہے پا کے بھی ڈھونڈا کرے کوئی تم نے تو حکم ترک
برباد تمنا پہ عتاب اور زیادہ
برباد تمنا پہ عتاب اور زیادہ ہاں میری محبت کا جواب اور زیادہ روئیں نہ ابھی اہل نظر حال پہ میرے ہونا ہے ابھی مجھ
جگر اور دل کو بچانا بھی ہے
جگر اور دل کو بچانا بھی ہے نظر آپ ہی سے ملانا بھی ہے محبت کا ہر بھید پانا بھی ہے مگر اپنا دامن بچانا
کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا اے شورش دوراں بھول گئے
کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا اے شورش دوراں بھول گئے وہ زلف پریشاں بھول گئے وہ دیدۂ گریاں بھول گئے اے شوق
خامشی کا تو نام ہوتا ہے
خامشی کا تو نام ہوتا ہے ورنہ یوں بھی کلام ہوتا ہے عشق کو پوچھتا نہیں کوئی حسن کا احترام ہوتا ہے آنکھ سے آنکھ
اذن خرام لیتے ہوئے آسماں سے ہم
اذن خرام لیتے ہوئے آسماں سے ہم ہٹ کر چلے ہیں رہ گزر کارواں سے ہم کیا پوچھتے ہو جھومتے آئے کہاں سے ہم پی
آسماں تک جو نالہ پہنچا ہے
آسماں تک جو نالہ پہنچا ہے دل کی گہرائیوں سے نکلا ہے میری نظروں میں حشر بھی کیا ہے میں نے ان کا جلال دیکھا
وہ نقاب آپ سے اٹھ جائے تو کچھ دور نہیں
وہ نقاب آپ سے اٹھ جائے تو کچھ دور نہیں ورنہ میری نگہ شوق بھی مجبور نہیں خاطر اہل نظر حسن کو منظور نہیں اس
Nazm
اعتراف
اب مرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو میں نے مانا کہ تم اک پیکر رعنائی ہو چمن دہر میں روح چمن آرائی
آوارہ
شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارا پھروں جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارا پھروں غیر کی بستی ہے کب تک در بہ در مارا
نوجوان خاتون سے
حجاب فتنہ پرور اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا خود اپنے حسن کو پردا بنا لیتی تو اچھا تھا تری نیچی نظر خود تیری عصمت
کس سے محبت ہے
بتاؤں کیا تجھے اے ہم نشیں کس سے محبت ہے میں جس دنیا میں رہتا ہوں وہ اس دنیا کی عورت ہے سراپا رنگ و
مجبوریاں
میں آہیں بھر نہیں سکتا کہ نغمے گا نہیں سکتا سکوں لیکن مرے دل کو میسر آ نہیں سکتا کوئی نغمے تو کیا اب مجھ
نذر دل
اپنے دل کو دونوں عالم سے اٹھا سکتا ہوں میں کیا سمجھتی ہو کہ تم کو بھی بھلا سکتا ہوں میں کون تم سے چھین
آج کی رات
دیکھنا جذب محبت کا اثر آج کی رات میرے شانے پہ ہے اس شوخ کا سر آج کی رات اور کیا چاہئے اب اے دل
تعارف
خوب پہچان لو اسرار ہوں میں جنس الفت کا طلب گار ہوں میں عشق ہی عشق ہے دنیا میری فتنۂ عقل سے بیزار ہوں میں
مزدوروں کا گیت
محنت سے یہ مانا چور ہیں ہم آرام سے کوسوں دور ہیں ہم پر لڑنے پر مجبور ہیں ہم مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم
ایک غمگین یاد
مرے پہلو بہ پہلو جب وہ چلتی تھی گلستاں میں فراز آسماں پر کہکشاں حسرت سے تکتی تھی محبت جب چمک اٹھتی تھی اس کی
سانحہ
درد و غم حیات کا درماں چلا گیا وہ خضر عصر و عیسیٔ دوراں چلا گیا ہندو چلا گیا نہ مسلماں چلا گیا انساں کی
مجھے جانا ہے اک دن
مجھے جانا ہے اک دن تیری بزم ناز سے آخر ابھی پھر درد ٹپکے گا مری آواز سے آخر ابھی پھر آگ اٹھے گی شکستہ
Sher
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا اسرار الحق مجاز
کچھ تمہاری نگاہ کافر تھی
کچھ تمہاری نگاہ کافر تھی کچھ مجھے بھی خراب ہونا تھا اسرار الحق مجاز
عشق کا ذوق نظارہ مفت میں بدنام ہے
عشق کا ذوق نظارہ مفت میں بدنام ہے حسن خود بے تاب ہے جلوہ دکھانے کے لیے اسرار الحق مجاز
یہ میرے عشق کی مجبوریاں معاذ اللہ
یہ میرے عشق کی مجبوریاں معاذ اللہ تمہارا راز تمہیں سے چھپا رہا ہوں میں اسرار الحق مجاز
مجھ کو یہ آرزو وہ اٹھائیں نقاب خود
مجھ کو یہ آرزو وہ اٹھائیں نقاب خود ان کو یہ انتظار تقاضا کرے کوئی اسرار الحق مجاز
دفن کر سکتا ہوں سینے میں تمہارے راز کو
دفن کر سکتا ہوں سینے میں تمہارے راز کو اور تم چاہو تو افسانہ بنا سکتا ہوں میں اسرار الحق مجاز
روئیں نہ ابھی اہل نظر حال پہ میرے
روئیں نہ ابھی اہل نظر حال پہ میرے ہونا ہے ابھی مجھ کو خراب اور زیادہ اسرار الحق مجاز
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے اسرار الحق مجاز
آنکھ سے آنکھ جب نہیں ملتی
آنکھ سے آنکھ جب نہیں ملتی دل سے دل ہم کلام ہوتا ہے اسرار الحق مجاز
یہ آنا کوئی آنا ہے کہ بس رسماً چلے آئے
یہ آنا کوئی آنا ہے کہ بس رسماً چلے آئے یہ ملنا خاک ملنا ہے کہ دل سے دل نہیں ملتا اسرار الحق مجاز
یہ میرے عشق کی مجبوریاں معاذ اللہ
یہ میرے عشق کی مجبوریاں معاذ اللہ تمہارا راز تمہیں سے چھپا رہا ہوں میں اسرار الحق مجاز
بتاؤں کیا تجھے اے ہم نشیں کس سے محبت ہے
بتاؤں کیا تجھے اے ہم نشیں کس سے محبت ہے میں جس دنیا میں رہتا ہوں وہ اس دنیا کی عورت ہے اسرار الحق مجاز
Qita
مجھے ساغر دوبارہ مل گیا ہے
مجھے ساغر دوبارہ مل گیا ہے تلاطم میں کنارا مل گیا ہے مری بادہ پرستی پر نا جاؤ جوانی کو سہارا مل گیا ہے اسرار
زندگی ساز دے رہی ہے مجھے
زندگی ساز دے رہی ہے مجھے سحر و اعجاز دے رہی ہے مجھے اور بہت دور آسمانوں سے موت آواز دے رہی ہے مجھے اسرار
کفر کیا تثلیث کیا الحاد کیا اسلام کیا
کفر کیا تثلیث کیا الحاد کیا اسلام کیا تو بہر صورت کسی زنجیر میں جکڑا ہوا توڑ سکتا ہے تو پہلے توڑ دے سب قید
تاج جب مرد کے ماتھے پہ نظر آتا ہے
تاج جب مرد کے ماتھے پہ نظر آتا ہے یک بیک خوں مری آنکھوں میں اتر آتا ہے جب نظر آتا ہے عورت کی جبیں
دل کو محو غم دل دار کئے بیٹھے ہیں
دل کو محو غم دل دار کئے بیٹھے ہیں رند بنتے ہیں مگر زہر پئے بیٹھے ہیں چاہتے ہیں کہ ہر اک ذرہ شگوفہ بن
نہ ان کا ذہن صاف ہے نہ میرا قلب صاف ہے
نہ ان کا ذہن صاف ہے نہ میرا قلب صاف ہے تو کیوں دلوں میں جا گزیں وہ بنت صد عفاف ہے مجازؔ آہ کیا
میکدہ چھوڑ کے میں تیری طرف آیا ہوں
میکدہ چھوڑ کے میں تیری طرف آیا ہوں سرفروشوں سے میں باندھے ہوئے صف آیا ہوں لاکھ ہوں مے کش آوارہ و آشفتہ مزاج کم
وقت کی سعیٔ مسلسل کارگر ہوتی گئی
وقت کی سعیٔ مسلسل کارگر ہوتی گئی زندگی لحظہ بہ لحظہ مختصر ہوتی گئی سانس کے پردوں میں بجتا ہی رہا ساز حیات موت کے
مجرم سرتابیٔ حسن جواں ہو جائیے
مجرم سرتابیٔ حسن جواں ہو جائیے گل فشانی تا کجا شعلہ فشاں ہو جائیے کھائیے گا اک نگاہ لطف کا کب تک فریب کوئی افسانہ
شاعر ہوں اور امیں ہوں عروس سخن کا میں
شاعر ہوں اور امیں ہوں عروس سخن کا میں کرنل نہیں ہوں خان بہادر نہیں ہوں میں کرنل سہی میں خان بہادر سہی مجازؔ اب
Qisse
احمقوں کی آمد
مجاز تنہا کافی ہاؤس میں بیٹھے تھے کہ ایک صاحب جو ان کے روشناس نہیں تھے، ان کے ساتھ والی کرسی پر آ بیٹھے۔ کافی
اماں صدر جاؤ گے
رات کا وقت تھا۔ مجاز کسی میخانے سے نکل کر یونیورسٹی روڈ پر ترنگ میں جھومتے ہوئے چلے جارہے تھے۔ اسی اثناء میں ادھر سے
جوش کی گھڑی مجاز کا گھڑا
جوش ملیح آبادی بالعموم شراب پیتے وقت ٹائم پیس سامنے رکھ لیتے اور ہر پندرہ منٹ کے بعد نیا پیگ بناتے تھے لیکن یہ پابندی
یہ نقش فریادی ہے کس کی شوخئ تحریر کا
کسی مشاعرے میں مجاز اپنی غزل پڑھ رہے تھے۔ محفل پورے رنگ پر تھی اور سامعین خاموشی کے ساتھ کلام سن رہے تھے کہ اتنے
بس ایک ہی بری عادت ہے۔ صاحب
فلمی اخبار کے ایڈیٹر مجاز سے انٹرویو لینے کے لئے مجاز کے ہوٹل پہنچ گئے۔۔۔ انہوں نے مجاز سے ان کی پیدائش، عمر، تعلیم اور
مجاز، شراب، عورت اور قدردان
مجاز سے کسی نے پوچھا مجاز صاحب، آپ کو عورتوں نے کھایا یا آپ کے قدر دانوں نے، یا شراب نے؟‘‘ شراب کا گلاس منہ
راجہ محمود آباد کی نصیحت اور مجاز کا جواب
ایک بار راجہ محمود آباد نے مجاز کو نصیحت کرتے ہوئے بڑ ے پیارسے سمجھایا۔ دیکھو میاں! اگر تم شراب پینا چھوڑدو، تو میں تمہارے
اقبال کی روح کو تکلیف
کسی جلسہ میں سردار جعفری اقبال کی شاعری پر گفتگو کررہے تھے ۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد جب سردار نے یہ انکشاف کیا
باپ کا بگڑنا
شوکت تھانوی نے ایک دفعہ مجاز کے والد کی بڑی تعریف کی، مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ مجاز کو شراب نوشی کی
حیدر آبادی کا ’ق
حیدرآباد دکن میں ’’ق‘‘ کی جگہ عام طور پر لوگ ’خ‘ بولتے ہیں۔ کسی حیدرآبادی نے مجاز کو ایک دعوت پر مدعو کرتے ہوئے کہا
خالص ’زبان‘ کے شعر
ایک بار دہلی میں ایک مشاعرہ ہورہا تھا مجاز لکھنوی بھی موجود تھے۔ دہلی کے ایک معمر شاعر جب کلام سنانے لگے تو کہا، ’’حضرات
نقادوں پر لعنت
میں متواتر کئی سالوں سے شعر کہہ رہا ہوں اور اردو شاعری میں کامیاب تجربے کرچکا ہوں۔ میرے متعدد منظوم شاہکار اردو ادب میں ایک