Murtaza Barlas
- 30 January 1934
- Rampur, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
اک بار ہی جی بھر کے سزا کیوں نہیں دیتے
اک بار ہی جی بھر کے سزا کیوں نہیں دیتے گر حرف غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتے ایسے ہی اگر مونس و غم
نیند بھی تیرے بنا اب تو سزا لگتی ہے
نیند بھی تیرے بنا اب تو سزا لگتی ہے چونک پڑتا ہوں اگر آنکھ ذرا لگتی ہے فاصلہ قرب بنا قرب بھی ایسا کہ مجھے
سادگی یوں آزمائی جائے گی
سادگی یوں آزمائی جائے گی نت نئی تہمت لگائی جائے گی جاگتے گزری ہے ساری زندگی اب ہمیں لوری سنائی جائے گی سوچ کا روزن
دنیا کو دیکھیے ذرا آنکھیں تو کھولیے
دنیا کو دیکھیے ذرا آنکھیں تو کھولیے سورج چڑھا ہے سر پہ بڑی دیر سو لیے ساری مسرتیں تری خوشیوں پہ وار دیں جتنے بھی
ذرا سی بات پہ ناراضگی اگر ہے یہی
ذرا سی بات پہ ناراضگی اگر ہے یہی تو پھر نبھے گی کہاں دوستی اگر ہے یہی تمہیں دعا بھی ہم آسودگی کی کیسے دیں
کس کس کا منہ بند کرو گے کس کس کو سمجھاؤ گے
کس کس کا منہ بند کرو گے کس کس کو سمجھاؤ گے دل کی بات زباں پر لا کے دیکھو تم پچھتاؤ گے آج یہ
آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح
آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح جسم سلگا ہے تری یاد میں ایندھن کی طرح لوریاں دی ہیں کسی قرب کی خواہش
ہمارے قول و عمل میں تضاد کتنا ہے
ہمارے قول و عمل میں تضاد کتنا ہے مگر یہ دل ہے کہ خوش اعتقاد کتنا ہے کہ جیسے رنگ ہی لے آئے گا لہو
آنکھیں ہیں سرخ ہونٹ سیہ رنگ زرد ہے
آنکھیں ہیں سرخ ہونٹ سیہ رنگ زرد ہے ہر شخص جیسے میرے قبیلے کا فرد ہے جب میں نہ تھا تو میری زمانے میں گونج
سارے ظالم اگر صف بہ صف ہو گئے
سارے ظالم اگر صف بہ صف ہو گئے ہم تہی دست بھی سر بکف ہو گئے وہ جو کچھ بھی نہ تھے اب ہیں سب
اک خواب لڑکپن میں جو دیکھا تھا وہ تم تھے
اک خواب لڑکپن میں جو دیکھا تھا وہ تم تھے پیکر جو تصور میں ابھرتا تھا وہ تم تھے تھا قرب کی خواہش میں بھی
اک برگ سبز شاخ سے کر کے جدا بھی دیکھ
اک برگ سبز شاخ سے کر کے جدا بھی دیکھ میں پھر بھی جی رہا ہوں مرا حوصلہ بھی دیکھ ذرے کی شکل میں مجھے
Sher
تم کو آدم زاد سمجھ کے ہم نے ہاتھ بڑھایا تھا
تم کو آدم زاد سمجھ کے ہم نے ہاتھ بڑھایا تھا کس کو خبر تھی چھوتے ہی تم پتھر کے ہو جاؤ گے مرتضیٰ برلاس
میں دل میں رکھتا نہیں منہ پہ صاف کہتا ہوں
میں دل میں رکھتا نہیں منہ پہ صاف کہتا ہوں کمی یہ مجھ میں ہے بے شک کمی اگر ہے یہی مرتضیٰ برلاس
سایہ ہوں تو پھر ساتھ نہ رکھنے کا سبب کیا
سایہ ہوں تو پھر ساتھ نہ رکھنے کا سبب کیا پتھر ہوں تو رستہ سے ہٹا کیوں نہیں دیتے مرتضیٰ برلاس
ایسے ہی اگر مونس و غم خوار ہو میرے
ایسے ہی اگر مونس و غم خوار ہو میرے یارو مجھے مرنے کی دعا کیوں نہیں دیتے مرتضیٰ برلاس
نام اس کا آمریت ہو کہ ہو جمہوریت
نام اس کا آمریت ہو کہ ہو جمہوریت منسلک فرعونیت مسند سے تب تھی اب بھی ہے مرتضیٰ برلاس
مجھے کی گئی ہے یہ پیشکش کہ سزا میں ہوں گی رعایتیں
مجھے کی گئی ہے یہ پیشکش کہ سزا میں ہوں گی رعایتیں جو قصور میں نے کیا نہیں وہ قبول کر لوں دباؤ میں مرتضیٰ
دشمن جاں ہی سہی دوست سمجھتا ہوں اسے
دشمن جاں ہی سہی دوست سمجھتا ہوں اسے بد دعا جس کی مجھے بن کے دعا لگتی ہے مرتضیٰ برلاس
مانا کہ تیرا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں
مانا کہ تیرا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں ملنے کے بعد مجھ سے ذرا آئنہ بھی دیکھ مرتضیٰ برلاس
چہرے کی چاندنی پہ نہ اتنا بھی مان کر
چہرے کی چاندنی پہ نہ اتنا بھی مان کر وقت سحر تو رنگ کبھی چاند کا بھی دیکھ مرتضیٰ برلاس