Naresh Kumar Shad
- 11 December 1927-20 May 1969
- Hoshiarpur, British India.
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Naresh Kumar Shad was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
ایک دھوکا ہے یہ شب رنگ سویرا کیا ہے
ایک دھوکا ہے یہ شب رنگ سویرا کیا ہے یہ اجالا ہے اجالا تو اندھیرا کیا ہے تو مرے غم میں نہ ہنستی ہوئی آنکھوں
پھر اس دنیا سے امید وفا ہے
پھر اس دنیا سے امید وفا ہے تجھے اے زندگی کیا ہو گیا ہے بڑی ظالم نہایت بے وفا ہے یہ دنیا پھر بھی کتنی
ڈوب کر پار اتر گئے ہیں ہم
ڈوب کر پار اتر گئے ہیں ہم لوگ سمجھے کہ مر گئے ہیں ہم اے غم دہر تیرا کیا ہوگا یہ اگر سچ ہے مر
شام وعدہ کا ڈھل گیا سایہ (ردیف)
شام وعدہ کا ڈھل گیا سایہ آنے والا ابھی نہیں آیا زندگی کے غموں کو اپنا کر ہم نے دراصل تم کو اپنایا جستجو ہی
بجلیوں کی ہنسی اڑانے کو
بجلیوں کی ہنسی اڑانے کو خود جلاتا ہوں آشیانے کو رو رہا ہے اگرچہ دل پھر بھی مسکراتا ہوں مسکرانے کو مطلقاً دل کشی نہ
بدگماں مجھ سے نہ اے فصل بہاراں ہونا
بدگماں مجھ سے نہ اے فصل بہاراں ہونا میری عادت ہے خزاں میں بھی گل افشاں ہونا میرے غم کو بھی دل آویز بنا دیتا
ترا تذکرہ سو بہ سو کیوں کریں ہم
ترا تذکرہ سو بہ سو کیوں کریں ہم محبت کو بے آبرو کیوں کریں ہم لکھی ہے مقدر میں نا کامیابی کریں تو غم آرزو
رونق بڑھے گی روئے نشاط جمال کی
رونق بڑھے گی روئے نشاط جمال کی تھوڑی سی گرد ڈال دو اس پر ملال کی دیتی رہی فریب انہیں بھی تری وفا آغاز میں
کون سلگتے آنسو روکے آگ کے ٹکڑے کون چبائے
کون سلگتے آنسو روکے آگ کے ٹکڑے کون چبائے اے ہم کو سمجھانے والے کوئی تجھے کیوں کر سمجھائے جیون کے اندھیارے پتھ پر جس
ناروا ہے کسی کی ہم راہی
ناروا ہے کسی کی ہم راہی راہ میں جا رہا ہوں تنہا ہی پھر بھی کیسا نفیس دھوکا ہے رنگ و بو ہے اگرچہ دھوکا
حیات ہے کہ مسلسل سفر کا عالم ہے
حیات ہے کہ مسلسل سفر کا عالم ہے ہر ایک سانس میں وحشی غزال کا رم ہے جہاں ازل سے گھٹا ٹوپ ظلمتیں ہیں محیط
Nazm
کشمکش
سوچتے سوچتے پھر مجھ کو خیال آتا ہے وہ مرے رنج و مصائب کا مداوا تو نہ تھی رنگ افشاں تھی مرے دل کی خلاؤں
گڈو
پھول سا نازک بیل سا کومل ننھا منا گڈو اپنا دنیا کے چہرے کی رونق فطرت کی آنکھوں کا سپنا صورت اس کی بھولی بھالی
اعتراف
میں نے خوابوں کے سمن رنگ شبستانوں میں لوریاں دے کے غم دل کو سلانا چاہا تلخی زیست سے بے زار و پریشاں ہو کر
کھلونا
میرے ہونٹوں کے مہکتے ہوئے نغموں پہ نہ جا میرے سینے میں کئی طرح کے غم پلتے ہیں میرے چہرے پہ دکھاوے کا تبسم ہے
راکھ
نہ جانے کب سے یونہی دل شکستہ بیٹھی ہوں اداس چہرے کو اپنی ہتھیلیوں میں لئے گزرنے والی ہے رات اور میری آنکھوں میں جلا
وہ ایک عام سی لڑکی ہے
وہ ایک عام سی لڑکی ہے دیکھ کر جس کو نہ جانے کیوں مجھے ایسا خیال آتا ہے کہ اس کے ہنسنے کا انداز یہ
ایک کلرک لڑکی
جسم ہے تیرا رنگ کی دنیا روپ ہے تیرا نور کی وادی تو بھی مجبور ہے کلرکی پر اے کلرکوں کے دل کی شہزادی تیری
مصلحت
چاندنی رات کے ہنستے ہوئے خوابوں کی طرح نقرئی جسم کا شاداب گلستاں لے کر شوخ آنکھوں کے چھلکتے ہوئے پیمانوں میں مجھ تہی دست
ایک ایکٹرس
وہ لڑکی وہ معصوم الھڑ سی لڑکی کسی آرزو کی طرح دل نشیں تھی شعاع سحر کی طرح تھی اچھوتی بہاروں ستاروں کا خواب حسیں
Sher
خدا سے کیا محبت کر سکے گا
خدا سے کیا محبت کر سکے گا جسے نفرت ہے اس کے آدمی سے نریش کمار شاد
اتنا بھی ناامید دل کم نظر نہ ہو
اتنا بھی ناامید دل کم نظر نہ ہو ممکن نہیں کہ شام الم کی سحر نہ ہو نریش کمار شاد
عقل سے صرف ذہن روشن تھا
عقل سے صرف ذہن روشن تھا عشق نے دل میں روشنی کی ہے نریش کمار شاد
اللہ رے بے خودی کہ ترے پاس بیٹھ کر
اللہ رے بے خودی کہ ترے پاس بیٹھ کر تیرا ہی انتظار کیا ہے کبھی کبھی نریش کمار شاد
زندگی نام ہے جدائی کا
زندگی نام ہے جدائی کا آپ آئے تو مجھ کو یاد آیا نریش کمار شاد
زندگی سے تو خیر شکوہ تھا
زندگی سے تو خیر شکوہ تھا مدتوں موت نے بھی ترسایا نریش کمار شاد
گناہوں سے ہمیں رغبت نہ تھی مگر یا رب
گناہوں سے ہمیں رغبت نہ تھی مگر یا رب تری نگاہ کرم کو بھی منہ دکھانا تھا نریش کمار شاد
محفل ان کی ساقی ان کا
محفل ان کی ساقی ان کا آنکھیں اپنی باقی ان کا نریش کمار شاد
محسوس بھی ہو جائے تو ہوتا نہیں بیاں
محسوس بھی ہو جائے تو ہوتا نہیں بیاں نازک سا ہے جو فرق گناہ و ثواب میں نریش کمار شاد
تو مرے غم میں نہ ہنستی ہوئی آنکھوں کو رلا
تو مرے غم میں نہ ہنستی ہوئی آنکھوں کو رلا میں تو مر مر کے بھی جی سکتا ہوں میرا کیا ہے نریش کمار شاد
طوفان غم کی تند ہواؤں کے باوجود
طوفان غم کی تند ہواؤں کے باوجود اک شمع آرزو ہے جو اب تک بجھی نہیں نریش کمار شاد
خدا سے لوگ بھی خائف کبھی تھے
خدا سے لوگ بھی خائف کبھی تھے مگر لوگوں سے اب خائف خدا ہے نریش کمار شاد
Rubai
بیتے ہوئے لمحوں کا اشارا لے کر
بیتے ہوئے لمحوں کا اشارا لے کر رومان کا بہتا ہوا دھارا لے کر اتری ہے مرے ذہن میں پھر یاد تری مہتاب کی کرنوں
آنکھوں میں سحر جھلک رہی ہے گویا
آنکھوں میں سحر جھلک رہی ہے گویا ہونٹوں سے شفق ڈھلک رہی ہے گویا یوں پھبکے ہوئے جسم میں رقصا ہے شباب پیمانے سے مے
الفاظ کی رگ رگ میں رچاتا ہوں لہو
الفاظ کی رگ رگ میں رچاتا ہوں لہو تابندہ خیالوں کو پلاتا ہوں لہو ہر شعر کی محراب میں مشعل کی طرح میں اپنی جوانی
احساس نشاط کی کمی دیکھو گے
احساس نشاط کی کمی دیکھو گے آلام کی گرد سی جمی دیکھو گے نزدیک سے دیکھو گے تبسم کو اگر سوکھے ہوئے اشکوں کی نمی
امرت سے فضائیں دم بدم دھلتی ہیں
امرت سے فضائیں دم بدم دھلتی ہیں ہر ذرے میں سو روشنیاں گھلتی ہیں جب صبح کو وہ نیند سے بوجھل آنکھیں کھلتی ہوئی کلیوں
جو محرم گل زار جہاں ہوتے ہیں
جو محرم گل زار جہاں ہوتے ہیں وہ اپنی لطافت کو کہاں کھوتے ہیں ہنسنا ہو اگر ہنستے ہیں غنچے کی طرح روتے ہیں تو
شالوں کے بھنور مچل رہے ہوں جیسے
شالوں کے بھنور مچل رہے ہوں جیسے انوار شفق پگھل رہے ہوں جیسے یوں لوریاں گاتا ہے ان آنکھوں میں شباب مندر میں چراغ چل
چہرے کی تب و تاب میں کوند لپکے
چہرے کی تب و تاب میں کوند لپکے آنکھوں میں حسین رات پلکیں جھپکے احساس کی انگلیاں جو چھو لیں ان کو بھیگے ہوئے انفاس
دنیا ہے ارم سے بھی حسیں دیکھ ذرا
دنیا ہے ارم سے بھی حسیں دیکھ ذرا آکاش پہ ہنستی ہے زمیں دیکھ ذرا آب آب ہوئے جاتے ہیں ماہ و انجم لو دیتی
ماحول سے ظلمت کی ردا ہٹتی ہے
ماحول سے ظلمت کی ردا ہٹتی ہے اک دھند سی تا حد نظر چھٹتی ہے لہرا کے بھرے جسم کو وہ جان بہار ہنستی ہے
تا حد نظر دمک رہے ہیں ذرے
تا حد نظر دمک رہے ہیں ذرے صد شعلہ بجاں دہک رہے ہیں ذرے مژدہ کہ مہ و مہر کے ایوانوں پر کوندوں کی طرح
جب اہل گلستاں کو شعور آئے گا
جب اہل گلستاں کو شعور آئے گا جب دیدۂ حساس میں نور آئے گا پھولوں کی لطافت بھی گراں گزرے گی کانٹوں کی چبھن میں
Qita
میں تو کیا مجھ کو دیکھنے والا
میں تو کیا مجھ کو دیکھنے والا اب مری بے بسی پہ روتا ہے بات کرتا ہوں ہونٹ جلتے ہیں سانس لیتا ہوں درد ہوتا
چاندنی رات کی خموشی میں
چاندنی رات کی خموشی میں یوں کوئی مہ جمال آتا ہے ایک شاعر کے ذہن میں جیسے خوب صورت خیال آتا ہے نریش کمار شاد
چوٹ کھا کر بھی مسکراتا ہوں
چوٹ کھا کر بھی مسکراتا ہوں درد دل سے بھی لطف اٹھاتا ہوں دوست ہی خندہ زن نہیں مجھ پر خود بھی اپنی ہنسی اڑاتا
ڈس گئی تیری کائنات مجھے
ڈس گئی تیری کائنات مجھے کھا گئے تیرے حادثات مجھے جانے کیوں پھر بھی آج تک تجھ پر پیار آتا ہے اے حیات مجھے نریش
میری فکر و نظر کے چہرے پر
میری فکر و نظر کے چہرے پر حادثوں کی کئی خراشیں ہیں یہ مرے شعر میرے شعر نہیں ایک صد چاک دل کی قاشیں ہیں
چاندنی سے دھلی ہوئی راتیں
چاندنی سے دھلی ہوئی راتیں ایک گلفام سے ملاقاتیں میرے ماضی مرے حسیں ماضی ہائے کیا ہو گئیں تری باتیں نریش کمار شاد
تو مری زندگی کا پرتو ہے
تو مری زندگی کا پرتو ہے میں تری آرزو کا سایا ہوں پھر بھی تجھ کو میں حد امکاں تک احتیاطاً پکار آیا ہوں نریش
کیسے بے سوز لوگ ہو یارو
کیسے بے سوز لوگ ہو یارو کیا خبر کس جہاں میں رہتے ہو میرے احساس کے شرارے ہیں تم جنہیں میرے شعر کہتے ہو نریش
غم کی راتوں کے خواب لایا ہوں
غم کی راتوں کے خواب لایا ہوں ہدیۂ اضطراب لایا ہوں شوخ لفظوں کے آبگینوں میں آنسوؤں کی شراب لایا ہوں نریش کمار شاد
اس غم و یاس کے سمندر میں
اس غم و یاس کے سمندر میں کوئی آسودگی کی لہر نہیں زندگی ہچکیوں کی نگری ہے زندگی قہقہوں کا شہر نہیں نریش کمار شاد
لے کے دل درد پائیدار دیا
لے کے دل درد پائیدار دیا چاندنی کے عوض غبار دیا شرم آتی ہے آپ سے کہتے آپ کی دوستی نے مار دیا نریش کمار
سرحد ہوش سے گزرتا ہوں
سرحد ہوش سے گزرتا ہوں ڈوبتا ہوں کبھی ابھرتا ہوں دیکھ کر تیری مدھ بھری آنکھیں میں خود اپنی تلاش کرتا ہوں نریش کمار شاد
Tanz-O-Mazakh
مرزا غالب سے انٹرویو
میں کیا یہ واقعہ ہے کہ آپ کے والد محترم عبداللہ بیگ آپ کی طرح اہل قلم یا اہل خرابات میں سے نہیں بلکہ اہل
Article
نئی شاعری اور طوائف
یوں تو پرانی شاعری میں بھی طوائف کا ذکر ہے لیکن وہاں اس کی انفرادیت کے خطوط واضح طور پر نمایاں نہیں ہوتے۔ کیونکہ اجتماعی