![Salaam Machhli Shahri 1 jpg 20230721 190333 0000](https://iztirab.com/wp-content/uploads/2023/07/jpg_20230721_190333_0000-1024x1024.jpg)
Salaam Machhli Shahri
- 01 July 1921-19 November 1973
- Machli Shahar, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Salaam Machhli Shahri was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
وہ چہرے جو تھے حسن کے طوفان کی طرح
وہ چہرے جو تھے حسن کے طوفان کی طرح کمروں میں چپ ہیں کاغذی گلدان کی طرح یہ چاند یہ بہار کی راتیں گواہ ہیں
اب عیادت کو مری کوئی نہیں آئے گا
اب عیادت کو مری کوئی نہیں آئے گا پھر ہوں بیمار کسی کو نہ یقیں آئے گا غم مسلسل ہو تو احباب بچھڑ جاتے ہیں
کاش تم سمجھ سکتیں زندگی میں شاعر کی ایسے دن بھی آتے ہیں
کاش تم سمجھ سکتیں زندگی میں شاعر کی ایسے دن بھی آتے ہیں جب اسی کے پروردہ چاند اس پہ ہنستے ہیں پھول مسکراتے ہیں
بن گئی ہے موت کتنی خوش ادا میرے لیے
بن گئی ہے موت کتنی خوش ادا میرے لیے سر جھکا کر پھول کرتے ہیں دعا میرے لیے تم نہ مرجھاؤ تو کلیو کل بتا
ہم ایسے لوگ جلد اسیر خزاں ہوئے
ہم ایسے لوگ جلد اسیر خزاں ہوئے لیکن غرور و تمکنت گلستاں ہوئے طوفان عہد تازہ ترا شکریہ کہ اب جتنے ستارے ذہن میں چمکے
تھوڑی دیر اے ساقی بزم میں اجالا ہے
تھوڑی دیر اے ساقی بزم میں اجالا ہے جام خالی ہونے تک چاند ڈھلنے والا ہے صبح کی حسیں کرنیں ناگ بن کے ڈس لیں
نہ موج بادہ نہ زلفوں نہ ان گھٹاؤں نے
نہ موج بادہ نہ زلفوں نہ ان گھٹاؤں نے مجھے ڈسا ہے مری شعلہ زا نواؤں نے غم حیات سے ٹکرا کے گیت بن جانا
صبح دم بھی یوں فسردہ ہو گیا
صبح دم بھی یوں فسردہ ہو گیا اے دل نازک تجھے کیا ہو گیا سینۂ بربط سے جو شعلہ اٹھا غم زدوں کے دل کا
ان غزالان طرح دار کو کیسے چھوڑوں
ان غزالان طرح دار کو کیسے چھوڑوں جلوۂ وادئ تاتار کو کیسے چھوڑوں درد آگیں ہی سہی بربط پس منظر بزم نشہ ہائے لب و
پھولوں کے دیس چاند ستاروں کے شہر میں
پھولوں کے دیس چاند ستاروں کے شہر میں برباد ہو رہا ہوں نگاروں کے شہر میں موج سمن میں زہر ہے باد صبا میں آگ
شگفتہ بچوں کا چہرہ دکھائی دینے لگے
شگفتہ بچوں کا چہرہ دکھائی دینے لگے میں کیا کروں کہ اجالا دکھائی دینے لگے یہ سخت ظلم ہے مالک کہ صبح ہوتے ہی تمام
ہوا زمانے کی ساقی بدل تو سکتی ہے
ہوا زمانے کی ساقی بدل تو سکتی ہے حیات ساغر رنگیں میں ڈھل تو سکتی ہے بس اک لطیف تبسم بس اک حسین نظر مریض
Nazm
مزدور لڑکی
وہ اک مزدور لڑکی ہے بہت آسان ہے میرے لیے اس کو منا لینا ذرا آراستہ ہو لوں مرا آئینہ کہتا ہے کسی سب سے
بہت دنوں کی بات ہے
بہت دنوں کی بات ہے فضا کو یاد بھی نہیں یہ بات آج کی نہیں بہت دنوں کی بات ہے شباب پر بہار تھی فضا
سمکش
زندگی آج بھی اک مسئلہ ہے نہ تخیل نہ حقیقت نہ فریب رنگیں گیت قربان کیے شعلۂ دل نذر نغمۂ خواب دیئے پھر بھی یہ
آؤ چلیں ماں
آؤ چلیں ماں ٹھنڈی فضاؤں میں شہروں سے دور کہیں چھوٹے سے گاؤں میں مانا یہ چاندی کی دنیا حسین ہے دھرتی کی حوروں کا
سڑک بن رہی ہے
مئی کے مہینے کا مانوس منظر غریبوں کے ساتھی یہ کنکر یہ پتھر وہاں شہر سے ایک ہی میل ہٹ کر سڑک بن رہی ہے
وہ زندہ ہے
گلابی دور میں وہ اپنے فن کا شاہزادہ تھا فضائے عارض و چشم و لب و گیسو کا شیدائی وہ عریاں نیم عریاں جسم کی
تسلسل
ٹھہر جاؤ انہیں گاتی ہوئی پر نور راہوں میں اور اک لمحے کو یہ سوچو ہرے شیتل منوہر کتنے جنگل آج ویراں ہے وہ کیسی
دھرتی امر ہے
ذرا آہستہ بول آہستہ دھرتی سہم جائے گی یہ دھرتی پھول اور کلیوں کی سندر سج ہے ناداں گرج کر بولنے والوں سے کلیاں روٹھ
اک جگنو کے ساتھ
بھاگ رہی ہے چنچل لڑکی اک جگنو کے ساتھ ڈالی ڈالی پھیلاتی ہے اپنے کومل ہاتھ دیکھ رہے ہیں پھول اور پودے باغ کے یہ
یہ آنے والا زمانہ ہمارا
ہے روشن حقیقت فسانہ ہمارا نئی زندگی بن کے بکھرے گا ہر سو نئی روشنی کا ترانہ ہمارا نیا آنے والا زمانہ ہمارا پرانے چراغوں
یہ دھرتی خوبصورت ہے
نہیں فاروقی! اس دھرتی کو میں ہرگز نہ چھوڑوں گا مجھے جس دور نے پالا ہے، وہ بے شک پرانا ہے مجھے محبوب اب بھی
Sher
یوں ہی آنکھوں میں آ گئے آنسو
یوں ہی آنکھوں میں آ گئے آنسو جائیے آپ کوئی بات نہیں سلام ؔمچھلی شہری
اے مرے گھر کی فضاؤں سے گریزاں مہتاب
اے مرے گھر کی فضاؤں سے گریزاں مہتاب اپنے گھر کے در و دیوار کو کیسے چھوڑوں سلام ؔمچھلی شہری
غم مسلسل ہو تو احباب بچھڑ جاتے ہیں
غم مسلسل ہو تو احباب بچھڑ جاتے ہیں اب نہ کوئی دل تنہا کے قریں آئے گا سلام ؔمچھلی شہری
تم شراب پی کر بھی ہوش مند رہتے ہو
تم شراب پی کر بھی ہوش مند رہتے ہو جانے کیوں مجھے ایسی مے کشی نہیں آئی سلام ؔمچھلی شہری
اب ماحصل حیات کا بس یہ ہے اے سلامؔ
اب ماحصل حیات کا بس یہ ہے اے سلامؔ سگریٹ جلائی شعر کہے شادماں ہوئے سلام ؔمچھلی شہری
کبھی کبھی عرض غم کی خاطر ہم اک بہانا بھی چاہتے ہیں
کبھی کبھی عرض غم کی خاطر ہم اک بہانا بھی چاہتے ہیں جب آنسوؤں سے بھری ہوں آنکھیں تو مسکرانا بھی چاہتے ہیں سلام ؔمچھلی
رات دل کو تھا سحر کا انتظار
رات دل کو تھا سحر کا انتظار اب یہ غم ہے کیوں سویرا ہو گیا سلام ؔمچھلی شہری
کاش تم سمجھ سکتیں زندگی میں شاعر کی ایسے دن بھی آتے ہیں
کاش تم سمجھ سکتیں زندگی میں شاعر کی ایسے دن بھی آتے ہیں جب اسی کے پروردہ چاند اس پہ ہنستے ہیں پھول مسکراتے ہیں
وہ صرف میں ہوں جو سو جنتیں سجا کر بھی
وہ صرف میں ہوں جو سو جنتیں سجا کر بھی اداس اداس سا تنہا دکھائی دینے لگے سلام ؔمچھلی شہری
عجیب بات ہے میں جب بھی کچھ اداس ہوا
عجیب بات ہے میں جب بھی کچھ اداس ہوا دیا سہارا حریفوں کی بد دعاؤں نے سلام ؔمچھلی شہری
بجھ گئی کچھ اس طرح شمع سلامؔ
بجھ گئی کچھ اس طرح شمع سلامؔ جیسے اک بیمار اچھا ہو گیا سلام ؔمچھلی شہری
آج تو شمع ہواؤں سے یہ کہتی ہے سلامؔ
آج تو شمع ہواؤں سے یہ کہتی ہے سلامؔ رات بھاری ہے میں بیمار کو کیسے چھوڑوں سلام ؔمچھلی شہری