Habib Jalib
- 24 March 1928 - 12 March 1993
- Punjab, Pakistan
Introduction
Ghazal
ماورائے جہاں سے آئے ہیں
ماورائے جہاں سے آئے ہیں آج ہم خمستاں سے آئے ہیں اس قدر بے رخی سے بات نہ کر دیکھ تو ہم کہاں سے آئے
جہاں ہیں محبوس اب بھی ہم وہ حرم سرائیں نہیں رہیں گی
جہاں ہیں محبوس اب بھی ہم وہ حرم سرائیں نہیں رہیں گی لرزتے ہونٹوں پہ اب ہمارے فقط دعائیں نہیں رہیں گی غصب شدہ حق
کتنا سکوت ہے رسن و دار کی طرف
کتنا سکوت ہے رسن و دار کی طرف آتا ہے کون جرأت اظہار کی طرف دشت وفا میں آبلہ پا کوئی اب نہیں سب جا
جب کوئی کلی صحن گلستاں میں کھلی ہے
جب کوئی کلی صحن گلستاں میں کھلی ہے شبنم مری آنکھوں میں وہیں تیر گئی ہے جس کی سر افلاک بڑی دھوم مچی ہے آشفتہ
کیسے کہیں کہ یاد یار رات جا چکی بہت
کیسے کہیں کہ یاد یار رات جا چکی بہت رات بھی اپنے ساتھ ساتھ آنسو بہا چکی بہت چاند بھی ہے تھکا تھکا تارے بھی
گھر کے زنداں سے اسے فرصت ملے تو آئے بھی
گھر کے زنداں سے اسے فرصت ملے تو آئے بھی جاں فزا باتوں سے آ کے میرا دل بہلائے بھی لگ کے زنداں کی سلاخوں
ہر گام پر تھے شمس و قمر اس دیار میں
ہر گام پر تھے شمس و قمر اس دیار میں کتنے حسیں تھے شام و سحر اس دیار میں وہ باغ وہ بہار وہ دریا
غالب و یگانہ سے لوگ بھی تھے جب تنہا
غالب و یگانہ سے لوگ بھی تھے جب تنہا ہم سے طے نہ ہوگی کیا منزل ادب تنہا فکر انجمن کس کو کیسی انجمن پیارے
دیار داغ و بیخود شہر دہلی چھوڑ کر تجھ کو
دیار داغ و بیخود شہر دہلی چھوڑ کر تجھ کو نہ تھا معلوم یوں روئے گا دل شام و سحر تجھ کو کہاں ملتے ہیں
مہتاب صفت لوگ یہاں خاک بسر ہیں
مہتاب صفت لوگ یہاں خاک بسر ہیں ہم محو تماشائے سر راہ گزر ہیں حسرت سی برستی ہے در و بام پہ ہر سو روتی
تیری آنکھوں کا عجب طرفہ سماں دیکھا ہے
تیری آنکھوں کا عجب طرفہ سماں دیکھا ہے ایک عالم تری جانب نگراں دیکھا ہے کتنے انوار سمٹ آئے ہیں ان آنکھوں میں اک تبسم
شہر ویراں اداس ہیں گلیاں
شہر ویراں اداس ہیں گلیاں رہ گزاروں سے اٹھ رہا ہے دھواں آتش غم میں جل رہے ہیں دیار گرد آلود ہے رخ دوراں بستیوں
Nazm
خطرے میں اسلام نہیں
خطرہ ہے زرداروں کو گرتی ہوئی دیواروں کو صدیوں کے بیماروں کو خطرے میں اسلام نہیں ساری زمیں کو گھیرے ہوئے ہیں آخر چند گھرانے
دستور
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے ایسے دستور
جمہوریت
دس کروڑ انسانو زندگی سے بیگانو صرف چند لوگوں نے حق تمہارا چھینا ہے خاک ایسے جینے پر یہ بھی کوئی جینا ہے بے شعور
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا پتھر کو گہر دیوار کو در کرگس کو ہما کیا لکھنا اک حشر بپا
مشیر
میں نے اس سے یہ کہا یہ جو دس کروڑ ہیں جہل کا نچوڑ ہیں ان کی فکر سو گئی ہر امید کی کرن ظلمتوں
مولانا
بہت میں نے سنی ہے آپ کی تقریر مولانا مگر بدلی نہیں اب تک مری تقدیر مولانا خدارا شکر کی تلقین اپنے پاس ہی رکھیں
عورت
بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا دیوار ہے وہ اب تک جس میں تجھے چنوایا دیوار کو آ توڑیں بازار کو آ
14اگست
کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری کہاں بدلی ہیں تقریریں ہماری وطن تھا ذہن میں زنداں نہیں تھا چمن خوابوں کا یوں ویراں نہیں تھا بہاروں
ضابطہ
یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل
ماں
بچوں پہ چلی گولی ماں دیکھ کے یہ بولی یہ دل کے مرے ٹکڑے یوں روئے مرے ہوتے میں دور کھڑی دیکھوں یہ مجھ سے
ملاقات
جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی اس نے نہ ٹھہرنے دیا پہروں مرے دل
داستان دل دو نیم
اک حسیں گاؤں تھا کنار آب کتنا شاداب تھا دیار آب کیا عجب بے نیاز بستی تھی مفلسی میں بھی ایک مستی تھی کتنے دل
Sher
پھر دل سے آ رہی ہے صدا اس گلی میں چل
پھر دِل سے آ رہی ہے صدا اُس گلی میں چل .شاید ملے غزل کا پتا اُس گلی میں چل حبیب جالب
اس شہر خرابی میں غم عشق کہ مارے
اس شہر خرابی میں غم عشق کہ مارے .زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے حبیب جالب
وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا
وُہ جُو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا .اِس آوارہ دیوانے کو جالبؔ جالبؔ کہتے ہیں حبیب جالب
چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالبؔ نہیں بھولے
چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالبؔ نہیں بھولے . تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تُو نہیں تھا حبیب جالب
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
تُم سے پہلے وُہ جُو اِک شخص یہاں تخت نشیں تھا .اس کو بھی اپنے خُدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا حبیب جالب
دنیا تو چاہتی ہے یونہی فاصلے رہیں
دنیا تُو چاہتی ہے یونہی فاصلے رہیں .دنیا کہ مشوروں پہ نہ جا اس گلی میں چل حبیب جالب
پا سکیں گے نہ عمر بھر جس کو
پا سکیں گے نہ عُمر بھر جس کو .جستُجو آج بھی اُسی کی ہے حبیب جالب
کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناں
کچھ اُور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناں .کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے حبیب جالب
تو آگ میں اے عورت زندہ بھی جلی برسوں
تُو آگ میں اے عورت زندہ بھی جلی برسوں .سانچے میں ہر اِک غم کہ چپ چاپ ڈھلی برسوں حبیب جالب
جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کہ لیے بدنام ہوئے
جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کہ لیے بدنام ہوئے .آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں حبیب جالب
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دُشمنوں نے جُو دُشمنی کی ہے .دُوستُوں نے بھی کیا کمی کی ہے حبیب جالب
ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں .دنیا والے دِل والوں کو اُور بہت کچھ کہتے ہیں حبیب جالب
Qita
تجھے پایا کہ تجھ کو کھو دیا ہے
تجھے پایا کہ تجھ کو کھو دیا ہے یہ اکثر سوچ کر دل رو دیا ہے ہمارا داغ دل جائے نہ جائے ترا دامن تو
مدتیں ہو گئیں خطا کرتے
مدتیں ہو گئیں خطا کرتے شرم آتی ہے اب دعا کرتے چاند تارے بھی ان کا اے جالبؔ تھرتھراتے ہیں سامنا کرتے حبیب جالب
نت نئے شہر نت نئی دنیا
نت نئے شہر نت نئی دنیا ہم کو آوارگی سے پیار رہا ان کے آنے کے بعد بھی جالبؔ دیر تک ان کا انتظار رہا
ڈوب جائے گا آج بھی خورشید
ڈوب جائے گا آج بھی خورشید آج بھی تم نظر نہ آؤ گے بیت جائے گی اس طرح ہر شام زندگی بھر ہمیں رلاؤ گے
رنگ و بوئے گلاب کہہ لوں گا
رنگ و بوئے گلاب کہہ لوں گا موج جام شراب کہہ لوں گا لوگ کہتے ہیں تیرا نام نہ لوں میں تجھے ماہتاب کہہ لوں
زلف کی بات کیے جاتے ہیں
زلف کی بات کیے جاتے ہیں دن کو یوں رات کیے جاتے ہیں چند آنسو ہیں انہیں بھی جالبؔ نذر حالات کیے جاتے ہیں حبیب
غم کے سانچے میں ڈھل سکو تو چلو
غم کے سانچے میں ڈھل سکو تو چلو تم مرے ساتھ چل سکو تو چلو دور تک تیرگی میں چلنا ہے صورت شمع جل سکو
سبزہ زاروں میں گزر تھا اپنا
سبزہ زاروں میں گزر تھا اپنا مست و شاداب نگر تھا اپنا جب اٹھاتا ہے کوئی محفل سے یاد آتا ہے کہ گھر تھا اپنا
کوچۂ صبح میں جا پہنچے ہم
کوچۂ صبح میں جا پہنچے ہم صورت موج صبا پہنچے ہم لاکھ اس گل کا پیام آیا تھا لاکھ تھے آبلہ پا پہنچے ہم حبیب
دوستو مشورے نہ دو ہم کو
دوستو مشورے نہ دو ہم کو مشوروں سے دماغ جلتا ہے یہ کسی نے غلط کہا تم سے ان کھلونوں سے جی بہلتا ہے حبیب
تیری بستی میں جدھر سے گزرے
تیری بستی میں جدھر سے گزرے ہائے کیا لوگ نظر سے گزرے کتنی یادوں نے ہمیں تھام لیا ہم جو اس راہ گزر سے گزرے
جہاں آساں تھا دن کو رات کرنا
جہاں آساں تھا دن کو رات کرنا وہ گلیاں ہو گئی ہیں ایک سپنا اب ان کی یاد ہے پلکوں پہ روشن اب ان کو