Nazeer Akbarabadi
- 1735 – 1830
- Agra, India
Introduction
Ghazal
دور سے آئے تھے ساقی سُن کہ مے خانے کو ہم
دور سے آئے تھے ساقی سُن کہ مے خانے کو ہم بس ترستے ہی چلے افسوس پیمانے کو ہم مے بھی ہے مینا بھی ہے
کہا جُو ہم نے ہمیں در سے کیوں اٹھاتے ہو
کہا جُو ہم نے ہمیں در سے کیوں اٹھاتے ہو کہا کے اس لیے تم یاں جُو غل مچاتے ہو کہا لڑاتے ہو کیوں ہم
ہم اشک غم ہیں اگر تھم رہے رہے نہ رہے
ہم اشک غم ہیں اگر تھم رہے رہے نہ رہے مژہ پہ آن کہ ٹک جم رہے رہے نہ رہے رہیں وُہ شخص جُو بزم
لپٹ لپٹ کہ میں اس گُل کہ ساتھ سوتا تھا
لپٹ لپٹ کہ میں اس گُل کہ ساتھ سوتا تھا رقیب صبح کو منہ آنسوؤں سے دھوتا تھا تمام رات تھی اُور کہنیاں و لاتیں
جب میں سنا کے یار کا دِل مُجھ سے ہٹ گیا
جب میں سنا کے یار کا دِل مُجھ سے ہٹ گیا سنتے ہی اس کے مرا کلیجہ الٹ گیا فرہاد تھا تُو شیریں کہ غم
جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو
جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو یہ داغ وُہ ہے کے دشمن کو بھی نصیب نہ ہو جدا جُو ہم کو کرے
اگر ہے منظور یہ کے ہووے ہمارے سینے کا داغ ٹھنڈا
اگر ہے منظور یہ کے ہووے ہمارے سینے کا داغ ٹھنڈا تُو آ لپٹئے گلے سے اے جاں جھمک سے کر جھپ چراغ ٹھنڈا ہم
عشق پھر رنگ وُہ لایا ہے کے جی جانے ہے
عشق پھر رنگ وُہ لایا ہے کے جی جانے ہے دِل کا یہ رنگ بنایا ہے کہ جی جانے ہے ناز اٹھانے میں جفائیں تُو
نہ میں دِل کو اب ہر مکاں بیچتا ہوں
نہ میں دِل کو اب ہر مکاں بیچتا ہوں کوئی خوب رو لے تُو ہاں بیچتا ہوں وُہ مے جس کو سب بیچتے ہیں چھپا
دِل یار کی گلی میں کر آرام رہ گیا
دِل یار کی گلی میں کر آرام رہ گیا پایا جہاں فقیر نے بسرام رہ گیا کس کس نے اِس کہ عشق میں مارا نہ
سراپا حُسن سمدھن گویا گُلشن کی کیاری ہے
سراپا حُسن سمدھن گویا گُلشن کی کیاری ہے پری بھی اب تُو بازی حُسن میں سمدھن سے ماری ہے کھنچی کنگھی گندھی چوٹی جمی پٹی
اِس کہ شرار حُسن نے شعلہ جُو اِک دکھا دیا
اِس کہ شرار حُسن نے شعلہ جُو اِک دکھا دیا طور کو سر سے پاؤں تک پھونک دیا جلا دیا پھر کہ نگاہ چار سو
Nazm
بنجارہ نامہ
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا قزاق اجل کا لوٹے ہے دِن رات بجا کر نقارا کیا بدھیا بھینسا
مفلسی
جب آدمی کہ حال پہ آتی ہے مفلسی کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی پیاسا تمام روز بٹھاتی ہے مفلسی بھوکا تمام
آدمی نامہ
دنیا میں پادشہ ہے سُو ہے وُہ بھی آدمی اُور مفلس و گدا ہے سُو ہے وُہ بھی آدمی زردار بے نوا ہے سو ہے
روٹیاں
جب آدمی کہ پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں پھولی نہیں بدن میں سماتی ہیں روٹیاں آنکھیں پری رخوں سے لڑاتی ہیں روٹیاں سینے اپر بھی
برسات کی بہاریں
ہیں اس ہوا میں کیا کیا برسات کی بہاریں سبزوں کی لہلہاہٹ باغات کی بہاریں بوندوں کی جھمجھماوٹ قطرات کی بہاریں ہر بات کہ تماشے
مہادیو جی کا بیاہ
پہلے ناؤں گنیش کا لیجئے سیس نوائے جا سے کارج سدھ ہوں سدا مہورت لائے بول بچن آنند کہ پریم، پیت اور چاہ سُن لو
ہولی کی بہاریں
جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں ، تب دیکھ بہاریں ہولی کی اُور دف کہ شور کھڑکتے ہوں ، تب دیکھ بہاریں ہولی کی پریوں کک
ہولی
آ دھمکے عیش و طرب کیا کیا جب حُسن دکھایا ہولی نے ہر آن خُوشی کی دھوم ہوئی یُوں لطف جتایا ہولی نے ہر خاطر
دارالمکافات
ہے دنیا جس کا ناؤں میاں یہ اُور طرح کی بستی ہے جُو مہنگوں کو یہ مہنگی ہے اُور سستوں کو یہ سستی ہے یاں
دیوالی
ہر اِک مکاں میں جلا پھر دیا دوالی کا ہر اِک طرف کو اجالا ہوا دوالی کا سبھی کہ دِل میں سماں بھا گیا دوالی
ہولی
پھر آن کہ عشرت کا مچا ڈھنگ زمیں پر اُور عیش نے عرصہ ہے کیا تنگ زمیں پر ہر دِل کو خُوشی کا ہوا آہنگ
سامان دیوالی کا
ہر اِک مکاں میں جلا پھر دیا دوالی کا ہر اِک طرف کو اجالا ہوا دوالی کا سبھی کہ دِل میں سماں بھا گیا دوالی
Sher
تھے ہم تو خود پسند بہت لیکن عشق میں
تھے ہم تو خود پسند بہت لیکن عشق میں اب ہے وہی پسند جو ہو یار کو پسند نظیر اکبرآبادی
جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو
جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو نظیر اکبرآبادی
تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے
تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے وہ بھی اے شوخ ترا چاہنے والا نکلا نظیر اکبرآبادی
کیوں نہیں لیتا ہماری تو خبر اے بے خبر
کیوں نہیں لیتا ہماری تو خبر اے بے خبر کیا ترے عاشق ہوئے تھے درد و غم کھانے کو ہم نظیر اکبرآبادی
جس کام کو جہاں میں تو آیا تھا اے نظیرؔ
جس کام کو جہاں میں تو آیا تھا اے نظیرؔ خانہ خراب تجھ سے وہی کام رہ گیا نظیر اکبرآبادی
مے پی کے جو گرتا ہے تو لیتے ہیں اسے تھام
مے پی کے جو گرتا ہے تو لیتے ہیں اسے تھام نظروں سے گرا جو اسے پھر کس نے سنبھالا نظیر اکبرآبادی
وہ کہتا ہے جی کوئی بیچے تو ہم لیں
وہ کہتا ہے جی کوئی بیچے تو ہم لیں تو کہتا ہوں لو ہاں میاں بیچتا ہوں نظیر اکبرآبادی
کہا جو حال دل اپنا تو اس نے ہنس ہنس کر
کہا جو حال دل اپنا تو اس نے ہنس ہنس کر کہا غلط ہے یہ باتیں جو تم بناتے ہو نظیر اکبرآبادی
کیوں نہیں لیتا ہماری تو خبر اے بے خبر
کیوں نہیں لیتا ہماری تو خبر اے بے خبر کیا ترے عاشق ہوئے تھے درد و غم کھانے کو ہم نظیر اکبرآبادی
مے بھی ہے مینا بھی ہے ساغر بھی ہے ساقی نہیں
مے بھی ہے مینا بھی ہے ساغر بھی ہے ساقی نہیں دل میں آتا ہے لگا دیں آگ مے خانے کو ہم نظیر اکبرآبادی
دل کی بیتابی نہیں ٹھہرنے دیتی ہے مجھے
دل کی بیتابی نہیں ٹھہرنے دیتی ہے مجھے دن کہیں رات کہیں صبح کہیں شام کہیں نظیر اکبرآبادی
تو جو کل آنے کو کہتا ہے نظیرؔ
تو جو کل آنے کو کہتا ہے نظیرؔ تجھ کو معلوم ہے کل کیا ہوگا نظیر اکبرآبادی
Rubai
گر یار سے ہر روز ملاقات نہیں
گر یار سے ہر روز ملاقات نہیں اور ہو بھی گئی تو پھر مدارات نہیں دل دے چکے اب قدر ہو یا بے قدری جو
اس شوخ کو ہم نے جس گھڑی جا دیکھا
اس شوخ کو ہم نے جس گھڑی جا دیکھا مکھڑے میں عجب حسن کا نقشہ دیکھا ایک آن دکھائی ہمیں ہنس کر ایسی جس آن
اے دل جو یہ آنکھ آج لڑائی اس نے
اے دل جو یہ آنکھ آج لڑائی اس نے اور پل میں لڑا کے پھر جھکائی اس نے اپنی بے باکی اور حیا کی خوبی
اس زلف نے ہم سے لے کے دل بستہ کیا
اس زلف نے ہم سے لے کے دل بستہ کیا ابرو نے کجی کے ڈھب کو پیوستہ کیا آنکھوں نے نگہ نے اور مژہ نے
ساقی سے جو ہم نے مے کا اک جام لیا
ساقی سے جو ہم نے مے کا اک جام لیا پیتے ہی نشے کا یہ سرانجام لیا معلوم نہیں جھک گئے یا بیٹھے رہے یا
یاد آتی ہیں جب ہمیں وہ پہلی چاہیں
یاد آتی ہیں جب ہمیں وہ پہلی چاہیں افسوس کرے ہے دل میں کیا کیا راہیں تھے شور جو قہقہ کے سو ان کے بدلے
ناصح نہ سنا سخن مجھے جس تس کے
ناصح نہ سنا سخن مجھے جس تس کے جو تو نے کہا یہ آوے جی میں کس کے کیوں کر نہ ملوں بھلا جی میں
ہم دل سے جو چاہتے ہیں اے جان تمہیں
ہم دل سے جو چاہتے ہیں اے جان تمہیں بے کل ہوں اگر نہ دیکھیں ایک آن تمہیں تم پاس بٹھاؤ تو ذرا بیٹھیں ہم
کیا حال اب اس سے اپنے دل کا کہئے
کیا حال اب اس سے اپنے دل کا کہئے منظور نہیں یہ بھی کہ بے جا کہئے مشکل ہے مہینوں میں نہ جاوے جو کہا
رکھتے ہیں جو ہم چاہ تمہاری دل میں
رکھتے ہیں جو ہم چاہ تمہاری دل میں آرام کی ہے امیدواری دل میں تم حکم قرار کو نہ دو گے جب تک البتہ رہے
ہم دیکھ کے تم سے رخ آرام میاں
ہم دیکھ کے تم سے رخ آرام میاں خوش رہتے ہیں دل میں سحر و شام میاں دیوانے تمہارے جب ادا کے ٹھہرے پھر حسن
رکھتی ہے جو خوش چاہ تمہاری ہم کو
رکھتی ہے جو خوش چاہ تمہاری ہم کو اور کرتی ہے شاد باری باری ہم کو کچھ دیر جو کہ تھی ہم نے دل دیتے