Iftikhar Arif
- 21 March 1943
- Lucknow, United Provinces, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے یہ روشنی کے تعاقب میں بھاگتا
دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ
جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں
جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں تم نے پوچھا تو ہوتا بتلا سکتا تھا میں آسودہ رہنے کی خواہش مار گئی ورنہ
ہجر کی دھوپ میں چھاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
ہجر کی دھوپ میں چھاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں آنسو بھی تو ماؤں جیسی باتیں کرتے ہیں رستہ دیکھنے والی آنکھوں کے انہونے خواب پیاس
عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا اس ایک خواب کی حسرت میں جل بجھیں آنکھیں
میرا مالک جب توفیق ارزانی کرتا ہے
میرا مالک جب توفیق ارزانی کرتا ہے گہرے زرد زمین کی رنگت دھانی کرتا ہے بجھتے ہوئے دیئے کی لو اور بھیگی آنکھ کے بیچ
حامی بھی نہ تھے منکر غالبؔ بھی نہیں تھے
حامی بھی نہ تھے منکر غالبؔ بھی نہیں تھے ہم اہل تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے اس بار بھی دنیا نے ہدف ہم کو
اب بھی توہین اطاعت نہیں ہوگی ہم سے
اب بھی توہین اطاعت نہیں ہوگی ہم سے دل نہیں ہوگا تو بیعت نہیں ہوگی ہم سے روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ
کوئی تو پھول کھلائے دعا کے لہجے میں
کوئی تو پھول کھلائے دعا کے لہجے میں عجب طرح کی گھٹن ہے ہوا کے لہجے میں یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال
وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے صبح سویرے رن پڑنا ہے اور گھمسان کا
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا چراغ حجرۂ درویش کی بجھتی ہوئی لو ہوا سے
Nazm
ابھی کچھ دن لگیں گے
دل ایسے شہر کے پامال ہو جانے کا منظر بھولنے میں ابھی کچھ دن لگیں گے جہان رنگ کے سارے خس و خاشاک سب سرو
بارہواں کھلاڑی
خوش گوار موسم میں ان گنت تماشائی اپنی اپنی ٹیموں کو داد دینے آتے ہیں اپنے اپنے پیاروں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں میں الگ تھلگ
محبت کی ایک نظم
مری زندگی میں بس اک کتاب ہے اک چراغ ہے ایک خواب ہے اور تم ہو یہ کتاب و خواب کے درمیان جو منزلیں ہیں
کوچ
جس روز ہمارا کوچ ہوگا پھولوں کی دکانیں بند ہوں گی شیریں سخنوں کے حرف دشنام بے مہر زبانیں بند ہوں گی پلکوں پہ نمی
ابو طالب کے بیٹے
جبین وقت پر لکھی ہوئی سچائیاں روشن رہی ہیں تا ابد روشن رہیں گی خدا شاہد ہے اور وہ ذات شاہد ہے کہ جو وجہ
ایک اداس شام کے نام
عجیب لوگ ہیں ہم اہل اعتبار کتنے بد نصیب لوگ ہیں جو رات جاگنے کی تھی وہ ساری رات خواب دیکھ دیکھ کر گزارتے رہے
ایک رخ
وہ فرات کے ساحل پر ہوں یا کسی اور کنارے پر سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں سارے خنجر ایک طرح کے ہوتے ہیں
ایک خواب کی دوری پر
اک خواہش تھی کبھی ایسا ہو کبھی ایسا ہو کہ اندھیرے میں (جب دل وحشت کرتا ہو بہت جب غم شدت کرتا ہو بہت) کوئی
ایک کہانی بہت پرانی
عجب دن تھے عجب نامہرباں دن تھے بہت نامہرباں دن تھے زمانے مجھ سے کہتے تھے زمینیں مجھ سے کہتی تھیں میں اک بے بس
اور ہوا چپ رہی
شاخ زیتون پر کم سخن فاختاؤں کے اتنے بسیرے اجاڑے گئے اور ہوا چپ رہی بے کراں آسمانوں کی پہنائیاں بے نشیمن شکستہ پروں کی
ایک تھا راجہ چھوٹا سا
علی افتخارؔ کی ماں سے میں نے بتا دیا ہے کہ اپنے بیٹے کو تتلیوں کے قریب جانے سے روکئے اسے روکئے کہ پڑوسیوں کے
اعلان نامہ
میں لاکھ بزدل سہی مگر میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں کہ جس کے بیٹوں نے جو کہا اس پہ جان دے دی میں جانتا
Sher
میں زندگی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت
میں زندگی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت جو ہو سکے تو دعاؤں کو بے اثر کر دے افتخار عارف
مری زمین مرا آخری حوالہ ہے
مری زمین مرا آخری حوالہ ہے سو میں رہوں نہ رہوں اس کو بارور کر دے افتخار عارف
تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں
تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں جان بہت شرمندہ ہیں افتخار عارف
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے افتخار عارف
دل پاگل ہے روز نئی نادانی کرتا ہے
دل پاگل ہے روز نئی نادانی کرتا ہے آگ میں آگ ملاتا ہے پھر پانی کرتا ہے افتخار عارف
دعا کو ہات اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
دعا کو ہات اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے افتخار عارف
بیٹیاں باپ کی آنکھوں میں چھپے خواب کو پہچانتی ہیں
بیٹیاں باپ کی آنکھوں میں چھپے خواب کو پہچانتی ہیں اور کوئی دوسرا اس خواب کو پڑھ لے تو برا مانتی ہیں افتخار عارف
خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے ہیں
خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے ہیں پھر بھی لوگ خداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں افتخار عارف
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے افتخار عارف
دعائیں یاد کرا دی گئی تھیں بچپن میں
دعائیں یاد کرا دی گئی تھیں بچپن میں سو زخم کھاتے رہے اور دعا دئیے گئے ہم افتخار عارف
عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا افتخار عارف
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے افتخار عارف
Naat
اپنے آقا کے مدینے کی طرف دیکھتے ہیں
اپنے آقا کے مدینے کی طرف دیکھتے ہیں دل الجھتا ہے تو سینے کی طرف دیکھتے ہیں اب یہ دنیا جسے چاہے اسے دیکھے سر
دل و نگاہ کی دنیا نئی نئی ہوئی ہے
دل و نگاہ کی دنیا نئی نئی ہوئی ہے درود پڑھتے ہی یہ کیسی روشنی ہوئی ہے میں بس یوں ہی تو نہیں آ گیا
دل و نگاہ کی دنیا نئی نئی ہوئی ہے
دل و نگاہ کی دنیا نئی نئی ہوئی ہے درود پڑھتے ہی یہ کیسی روشنی ہوئی ہے میں بس یوں ہی تو نہیں آ گیا
بلال و بوزر و سلمان کے آقا ادھر بھی
بلال و بوزر و سلمان کے آقا ادھر بھی بدل جاتی ہے جس سے دل کی دنیا و نظر بھی میں بسم اللہ لکھ کے
دلوں کے ساتھ جبینیں جو خم نہیں کرتے
دلوں کے ساتھ جبینیں جو خم نہیں کرتے وہ پاس مدحت خیرالامم نہیں کرتے دعا بغیر اجازت بغیر اذن بغیر ہم ایک لفظ سپرد قلم
مدینہ و نجف و کربلا میں رہتا ہے
مدینہ و نجف و کربلا میں رہتا ہے دل ایک وضع کی آب و ہوا میں رہتا ہے مرے وجود سے باہر بھی ہے کوئی