Raja Mehdi Ali Khan
- 23 September 1915-29 July 1966
- Gujranwala, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Raja Mehdi Ali Khan was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
ہم عشق میں برباد ہیں برباد رہیں گے
ہم عشق میں برباد ہیں برباد رہیں گے دل روئے گا تیرے لئے آنسو نہ بچیں گے سینے میں چھپا رکھیں گے ہم راز محبت
محبت کرنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے
محبت کرنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے تڑپنا ان کی قسمت میں تو صبح و شام ہوتا ہے ہمیشہ کے لئے دنیا میں دو
ہے اسی میں پیار کی آبرو وہ جفا کریں میں وفا کروں
ہے اسی میں پیار کی آبرو وہ جفا کریں میں وفا کروں جو وفا بھی کام نہ آ سکے تو وہی کہیں کہ میں کیا
Nazm
خرگوش کی غزل
کوئی شکاری بار بار بن میں ہمارے آئے کیوں چونکیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ڈرائے کیوں گھر نہیں جھونپڑی نہیں کٹیا نہیں مکاں
پرندوں کی میوزک کانفرنس
طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے الو جب مردنگ بجائے کوا شور مچائے ککڑوں کوں کی تان لگا کے مرغا گائے خیال قمری
ردیف اور قافیے
ہنسی کل سے مجھے اس بات پر ہے آ رہی خالو کہ خالہ کہہ رہی تھیں آپ کا ہے قافیہ آلو اسی دن سے بہت
مارو نہ ہمیں ڈیڈی
مارو نہ ہمیں ڈیڈی بچپن کا زمانہ ہے موسم ہے یہ ہنسنے کا ہنس ہنس کے بتانا ہے چھوٹے سے یہ بچے ہیں اور اتنی
قہقے
بھیا کی کھا کے مار لگاتا ہوں قہقہے جب دیکھتے ہیں یار لگاتا ہوں قہقہے دل میں ہے امتحان کا غم کس طرح بھلاؤں ہو
الف سے ی تک
الف جو آلو کھائے گا وہ موٹا ہو جائے گا ب بارش جب آتی ہے کوئل شور مچاتی ہے پ پالی میں نے بلی چل
چار بجے
بیٹھے بٹھائے ہو گئی گھر میں مار کٹائی چار بجے میرے بزرگوں نے مجھ کو تہذیب سکھائی چار بجے الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ
ادیب کی محبوبہ
تمہاری الفت میں ہارمونیم پہ میرؔ کی غزلیں گا رہا ہوں بہتر ان میں چھپے ہیں نشتر جو سب کے سب آزما رہا ہوں بہت
بچوں کا ڈنر
بتاؤں کھایا ہے کیا میں نے آج دو تھپڑ درست کر کے گئے ہیں مزاج دو تھپڑ حکیم نبض مری دیکھ کر یہ کہنے لگا
راشدہ باجی اور ایک لڑکی
راشدہ باجی نے چپ سے منہ پر مرے ایک تھپڑ جو مارا تو میں ہنس پڑی دے کے پھر ایک گھونسا انہوں نے کہا کان
بچوں کی توبہ
ہم نے بکری کے بچوں کو کمروں میں نچانا چھوڑ دیا ناراض نہ ہو امی ہم نے ہر شوق پرانا چھوڑ دیا ڈیڈی کے سوٹ
بچوں کا خط چچا خرو شچوف اور ماموں کینڈی
اے چچا خرو شچوف اے ماموں کینڈی السلام ایک ہی خط ہے یہ ماموں اور چچا دونوں کے نام آپ دونوں کا ادب کرنا ہمارا
Sher
مجھے غم بھی ان کا عزیز ہے کہ انہیں کی دی ہوئی چیز ہے یہی غم ہے اب مری زندگی اسے کیسے دل سے جدا
ہمیشہ کے لئے دنیا میں دو دل مل نہیں سکتے نظر ملنا جدائی کا ہی اک پیغام ہوتا ہے راجہ مہدی علی خان
قسمت سے شکایت ہے گلہ تجھ سے نہیں ہے تو نے جو دیا درد وہ ہنس ہنس کے سہیں گے راجہ مہدی علی خان
Humour/Satire
ہمیں ہماری بیویوں سے بچاؤ
یہ پل پڑتی ہیں ہم پر جب بھی ہم دفتر سے آتے ہیں ہلاکو خاں سے یا چنگیز خاں سے ان کے ناطے ہیں نہ
آخری گالی
پھر وہی چھیڑیں پیار کی باتیں آپ نہیں باز آئیں گے دیکھیے ہم اٹھ کر چل دیں گے آپ نہیں گر جائیں گے قوس قزح
ایک چہلم پر
جمیلہ اب اٹھو نہ آنسو بہاؤ نہیں وقت رونے کا دریاں بچھاؤ یہ دنیا ہے فانی گیا جانے والا وہ رونے سے واپس نہیں آنے
پیر اور مرشد
کھٹ کھٹ کھٹ در پہ کھڑا ہے کب سے آپ کا دیوانہ جنت کا دروازہ کھولیے مولانا چاند ہے آدھی رات حسیں ہے دیکھنے والا
بورڈ آف انٹرویو
کتا کیوں اپنی دم دباتا ہے کتنے میں ایک بندر آتا ہے آسماں پر ستارے کتنے ہیں شہر میں غم کے مارے کتنے ہیں تھوبڑی
جمال زادہ
مرے ننھے چاند مت رو مرے شاہزادے سو جا تری ضد کہیں اے ظالم نہ مجھے رلا دے سو جا تیرا باپ میرے گھر سے
میاں کے دوست
آئے میاں کے دوست تو آتے چلے گئے چھوٹے سے ایک گھر میں سماتے چلے گئے وہ قہقہے لگے کہ چھتیں گھر کی اڑ گئیں
جب شام جنت میں ہوئی
جب شام جنت میں ہوئی باغوں میں ہر سو گھوم کر حوریں مری گھر آ گئیں چوما ہر اک کا میں نے منہ چمکار کر
پارٹیشن
لہنگاؔ سنگھا کلمہ پڑھ لاالہ آگے پڑھ آگے آپ بتا دیجے میری جان بچا لیجے آگے مجھے اگر آتا تم سے میں کیوں پڑھواتا سوچ
پھول اور کانٹا
جھٹپٹے کے وقت شیشم کے درختوں کے تلے مل رہی تھی جب ہوا مسرور شاخوں سے گلے جب زمین خلد منظر کیف سے معمور تھی
خود کشی
رحیم اللہ ہوا اچھا تو اس نے یہ دیکھا ہو چکی ہے پارٹیشن گئے کچھ بھاگ اور کچھ مر چکے ہیں نہ نیتا سنگھ باقی
چور کی دعا
اے خالق ہر ارض و سما وقت دعا ہے بندے پہ ترے آج عجب وقت پڑا ہے پہلے بھی ہر آفت سے مجھے تو نے
Children Stories
ستارہ پری
ننھی شیلا ایک دن اپنی گڑیوں کے لئے چائے بنا رہی تھی۔ کہ یکایک اس کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ شیلا نے خیال