Kazim Jarwali
- 15 June 1955
- Jarwal, India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
ہم اندھیرے میں آ نہیں سکتے
ہم اندھیرے میں آ نہیں سکتے اپنا سایہ مٹا نہیں سکتے آندھیاں چھین لے گئیں پتے اب شجر گنگنا نہیں سکتے موجیں اپنی ہیں اپنا
قافلہ جا کے اسی دشت میں ٹھہرا اپنا
قافلہ جا کے اسی دشت میں ٹھہرا اپنا خود پہ رکھتے ہیں جہاں پیڑ بھی سایا اپنا اس جگہ لے کے مجھے تشنہ لبی آئی
یہ سچ ہے چراغاں تھا اجالا بھی بہت تھا
یہ سچ ہے چراغاں تھا اجالا بھی بہت تھا بستی کو مگر خوف ہوا کا بھی بہت تھا جس گھر کے در و بام پہ
جب بھی قصہ اپنا پڑھنا
جب بھی قصہ اپنا پڑھنا پہلے چہرہ چہرا پڑھنا تنہائی کی دھوپ میں تم بھی بیٹھ کے اپنا سایا پڑھنا آوازوں کے شہر میں رہ
لہو میں غرق ادھوری کہانیاں نکلیں
لہو میں غرق ادھوری کہانیاں نکلیں دہن سے ٹوٹی ہوئی سرخ چوڑیاں نکلیں میں جس زمین پہ صدیوں پھرا کیا تنہا اسی زمین سے کتنی
خشک ہونٹوں پہ مرے اپنے لب تر رکھ دے
خشک ہونٹوں پہ مرے اپنے لب تر رکھ دے میرے ساقی مرے صحرا پہ سمندر رکھ دے مقتل عشق میں اب تک جو پڑی ہے
سرابوں سے نوازا جا رہا ہوں
سرابوں سے نوازا جا رہا ہوں امیر دشت بنتا جا رہا ہوں مرے دریا ہمیشہ یاد رکھنا ترے ساحل سے پیاسا جا رہا ہوں فضائیں
کیا دکھا سکتا ہے کوئی معجزے اسی کروڑ
کیا دکھا سکتا ہے کوئی معجزے اسی کروڑ کیا کبھی حل ہو سکیں گے مسئلے اسی کروڑ سوچئے کیونکر کٹے گا وقت کا لمبا سفر
کہتا ہے مرا عزم کہ دو گام چلا ہوں
کہتا ہے مرا عزم کہ دو گام چلا ہوں اور پاؤں یہ کہتے ہیں کہ صدیوں کا تھکا ہوں منزل کا بھرم مجھ پہ عیاں
کبھی بہار کا موسم نیا دکھائی دے
کبھی بہار کا موسم نیا دکھائی دے گلاب باتیں کریں اور صبا دکھائی دے شب جنوں ہے کوئی معجزہ دکھائی دے کسی مکاں کا کوئی
سامنے جیسی چمک اور نہ جوہر دیکھا
سامنے جیسی چمک اور نہ جوہر دیکھا آئینہ میں نے کئی بار پلٹ کر دیکھا کبھی طوفاں کبھی ساحل کبھی گوہر دیکھا رات بھر خواب
قاتلو مانگیں تو سوغات سفر دے دینا
قاتلو مانگیں تو سوغات سفر دے دینا میرے بچوں کو مرا کاسۂ سر دے دینا لوگ پوچھیں گے کہ پردیس سے کیا لائے ہو راستو
Sher
مسل دیا تھا سر شام ایک جگنوں کو تمام رات خیالوں سے بجلیاں نکلیں کاظم جرولی
قاتلو ننھے جگنوؤں کا لہو روشنی ہے چھپا نہیں سکتے کاظم جرولی
اچھا ہے جو دنیا نے مجھے چھوڑ دیا ہے میں بھیڑ کے ہم راہ اکیلا بھی بہت تھا کاظم جرولی
اک عمر مرے دل کو یہ غم یاد رہے گا بے جرم ترے شہر کے زنداں میں رہا ہوں کاظم جرولی
اہل لشکر جو کمیں گاہوں میں واپس جانا میرے ہاتھوں میں بھی بوسیدہ سپر دے دینا کاظم جرولی
لوگ ہی سارے برے ہیں کہ کمی تجھ میں ہے آئینہ رکھ کے ذرا دیکھ تو چہرا اپنا کاظم جرولی
ایک کے بعد ایک رستے میں گزرنے کے لئے منتظر بیٹھے ہوئے ہیں حادثے اسی کروڑ کاظم جرولی
میں کس نشیب میں تیرا لہو تلاش کروں تمام دشت پہ خاک خیام بیٹھ گئی کاظم جرولی
مرے باہر فصیل آہنی ہے مگر اندر سے ٹوٹا جا رہا ہوں کاظم جرولی
مرے خیال سے روشن ہے کوہ طور ادب اڑیں نہ ہوش تو دیکھو وہ روشنی ہوں میں کاظم جرولی
نور پھر نور ہے چمکے گا وہ جگنو ہی سہی شرط یہ ہے کہ اسے تھوڑا اندھیرا مل جائے کاظم جرولی