Shibli Nomani
- 3 June 1857 – 18 November 1914
- Bindwal, India
Introduction
Ghazal
تیر قاتل کا یہ احساں رہ گیا
تیر قاتل کا یہ احساں رہ گیا جائے دل سینہ میں پیکاں رہ گیا کی ذرا دست جنوں نے کوتہی چاک آ کر تا بہ
ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو
ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو غم اٹھانے کا بھی باقی نہیں یارا ہم کو درد فرقت سے ترے ضعف ہے ایسا ہم
یار کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے
یار کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے گل تر کو ہوس خار نہ ہونے پائے اس میں در پردہ سمجھتے ہیں وہ اپنا ہی گلہ
پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا
پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا رخصت صبر تھی یا ترک شکیبائی تھا شب فرقت میں دل غمزدہ بھی پاس نہ تھا وہ
تیس دن کے لئے ترک مے و ساقی کر لوں
تیس دن کے لئے ترک مے و ساقی کر لوں واعظ سادہ کو روزوں میں تو راضی کر لوں پھینک دینے کی کوئی چیز نہیں
کچھ اکیلی نہیں میری قسمت
کچھ اکیلی نہیں میری قسمت غم کو بھی ساتھ لگا لگائی ہے منتظر دیر سے تھے تم میرے اب جو تشریف صبا لائی ہے نگہت
اثر کے پیچھے دل حزیں نے نشان چھوڑا نہ پھر کہیں کا
اثر کے پیچھے دل حزیں نے نشان چھوڑا نہ پھر کہیں کا گئے ہیں نالے جو سوئے گردوں تو اشک نے رخ کیا زمیں کا
Nazm
عدل فاروقی کا ایک نمونہ
ایک دن حضرت فاروقؓ نے منبر پہ کہا کیا تمہیں حکم جو کچھ دوں تو کرو گے منظور ایک نے اٹھ کے کہا یہ کہ
عدل جہانگیری
قصر شاہی میں کہ ممکن نہیں غیروں کا گزر ایک دن نورجہاں بام پہ تھی جلوہ فگن کوئی شامت زدہ رہ گیر ادھر آ نکلا
علمائے زندانی
مساجد کی حفاظت کے لیے پولس کی حاجت ہے خدا کو آپ نے مشکور فرمایا عنایت ہے عجب کیا ہے کہ اب ہر شاہراہ سے
مسلم لیگ
لوگ کہتے ہیں کہ آمادہ اصلاح ہے لیگ یہ اگر سچ ہے تو ہم کو بھی کوئی جنگ نہیں صیغہ راز سے کچھ کچھ یہ
مولویوں کا شغل تکفیر
اک مولوی صاحب سے کہا میں نے کہ کیا آپ کچھ حالت یورپ سے خبردار نہیں ہیں آمادۂ اسلام ہیں لندن میں ہزاروں ہر چند
Sher
آپ جاتے تو ہیں اس بزم میں شبلیؔ لیکن
آپ جاتے تو ہیں اس بزم میں شبلیؔ لیکن حال دل دیکھیے اظہار نہ ہونے پائے علامہ شبلی نعمانی
جمع کر لیجئے غیروں کو مگر خوبئ بزم
جمع کر لیجئے غیروں کو مگر خوبئ بزم بس وہیں تک ہے کہ بازار نہ ہونے پائے علامہ شبلی نعمانی
میں روح عالم امکاں میں شرح عظمت یزداں
میں روح عالم امکاں میں شرح عظمت یزداں ازل ہے میری بیداری ابد خواب گراں میرا علامہ شبلی نعمانی
عجب کیا ہے جو نوخیزوں نے سب سے پہلے جانیں دیں
عجب کیا ہے جو نوخیزوں نے سب سے پہلے جانیں دیں کہ یہ بچے ہیں ان کو جلد سو جانے کی عادت ہے علامہ شبلی
تسخیر چمن پر نازاں ہیں تزئین چمن تو کر نہ سکے
تسخیر چمن پر نازاں ہیں تزئین چمن تو کر نہ سکے تصنیف فسانہ کرتے ہیں کیوں آپ مجھے بہلانےکو علامہ شبلی نعمانی
فراز دار پہ بھی میں نے تیرے گیت گائے ہیں
فراز دار پہ بھی میں نے تیرے گیت گائے ہیں بتا اے زندگی تو لے گی کب تک امتحاں میرا علامہ شبلی نعمانی
یہ نظم آئیں یہ طرز بندش سخنوری ہے فسوں گری ہے
یہ نظم آئیں یہ طرز بندش سخنوری ہے فسوں گری ہے کہ ریختہ میں بھی تیرے شبلیؔ مزہ ہے طرز علی حزیںؔ کا علامہ شبلی
پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا
پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا رخصت صبر تھی یا ترک شکیبائی تھا علامہ شبلی نعمانی
کون اس راہ سے گزرا ہے کہ ہر نقش قدم
کون اس راہ سے گزرا ہے کہ ہر نقش قدم چشم عاشق کی طرح اس کا تماشائی تھا علامہ شبلی نعمانی
کچھ اکیلی نہیں میری قسمت
کچھ اکیلی نہیں میری قسمت غم کو بھی ساتھ لگا لگائی ہے علامہ شبلی نعمانی
موت بھی روٹھ گئی تھی مجھ سے
موت بھی روٹھ گئی تھی مجھ سے یہ شب ہجر منا لائی ہے علامہ شبلی نعمانی
یار کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے
یار کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے گل تر کو ہوس خار نہ ہونے پائے علامہ شبلی نعمانی