Anwar Masood
- 8 November 1935
- Punjab, Pakistan
Introduction
Ghazal
اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے
اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے وہ ایک بار ملے تھے تو پھر ملا کرتے کواڑ گرچہ مقفل تھے اس حویلی کے مگر فقیر
میں جرم خموشی کی صفائی نہیں دیتا
میں جرم خموشی کی صفائی نہیں دیتا ظالم اسے کہیے جو دہائی نہیں دیتا کہتا ہے کہ آواز یہیں چھوڑ کے جاؤ میں ورنہ تمہیں
اب کہاں اور کسی چیز کی جا رکھی ہے
اب کہاں اور کسی چیز کی جا رکھی ہے دل میں اک تیری تمنا جو بسا رکھی ہے سر بکف میں بھی ہوں شمشیر بکف
کیوں کسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے
کیوں کسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چھپاؤں اپنے میں تو قائم ہوں ترے غم کی بدولت ورنہ
کب تلک یوں دھوپ چھاؤں کا تماشا دیکھنا
کب تلک یوں دھوپ چھاؤں کا تماشا دیکھنا دھوپ میں پھرنا گھنے پیڑوں کا سایا دیکھنا ساتھ اس کے کوئی منظر کوئی پس منظر نہ
پڑھنے بھی نہ پائے تھے کہ وہ مٹ بھی گئی تھی
پڑھنے بھی نہ پائے تھے کہ وہ مٹ بھی گئی تھی بجلی نے گھٹاؤں پہ جو تحریر لکھی تھی چپ سادھ کے بیٹھے تھے سبھی
اگلے دن کچھ ایسے ہوں گے
اگلے دن کچھ ایسے ہوں گے چھلکے پھلوں سے مہنگے ہوں گے ننھی ننھی چیونٹیوں کے بھی ہاتھی جیسے سائے ہوں گے بھیڑ تو ہوگی
کب ضیا بار ترا چہرہ زیبا ہوگا
کب ضیا بار ترا چہرہ زیبا ہوگا کیا جب آنکھیں نہ رہیں گی تو اجالا ہوگا مشغلہ اس نے عجب سونپ دیا ہے یارو عمر
درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دے جاؤ
درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دے جاو کچھ نہ کچھ میری وفاؤں کا صلا دے جاو یوں نہ جاؤ کہ میں رو بھی نہ
جس طرح کی ہیں یہ دیواریں یہ در جیسا بھی ہے
جس طرح کی ہیں یہ دیواریں یہ در جیسا بھی ہے سر چھپانے کو میسر تو ہے گھر جیسا بھی ہے اس کو مجھ سے
کیسی کیسی آیتیں مستور ہیں نقطے کے بیچ
کیسی کیسی آیتیں مستور ہیں نقطے کے بیچ کیا گھنے جنگل چھپے بیٹھے ہیں اک دانے کے بیچ رفتہ رفتہ رخنہ رخنہ ہو گئی مٹی
بس یوں ہی اک وہم سا ہے واقعہ ایسا نہیں
بس یوں ہی اک وہم سا ہے واقعہ ایسا نہیں آئینے کی بات سچی ہے کہ میں تنہا نہیں بیٹھیے پیڑوں کی اترن کا الاو
Nazm
گھر
چھپے ہیں اشک دروازوں کے پیچھے چھتوں نے سسکیاں ڈھانپی ہوئی ہیں دکھوں کے گرد دیواریں چنی ہیں بظاہر مختلف شکلیں ہیں سب کی مگر
میری پہلی نظم
کیا بچے سلجھے ہوتے ہیں جب گیند سے الجھے ہوتے ہیں وہ اس لیے مجھ کو بھاتے ہیں دن بیتے یاد دلاتے ہیں وہ کتنے
سائیڈ ایفیکٹس
سر درد میں گولی یہ بڑی زود اثر ہے پر تھوڑا سا نقصان بھی ہو سکتا ہے اس سے ہو سکتی ہے پیدا کوئی تبخیر
Sher
دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے مرا
دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے مرا دیکھ اب برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے انور مسعود
اس وقت وہاں کون دھواں دیکھنے جائے
اس وقت وہاں کون دھواں دیکھنے جائے اخبار میں پڑھ لیں گے کہاں آگ لگی تھی انور مسعود
اردو سے ہو کیوں بیزار انگلش سے کیوں اتنا پیار
اردو سے ہو کیوں بیزار انگلش سے کیوں اتنا پیار چھوڑو بھی یہ رٹا یار ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار انور مسعود
آسماں اپنے ارادوں میں مگن ہے لیکن
آسماں اپنے ارادوں میں مگن ہے لیکن آدمی اپنے خیالات لیے پھرتا ہے انور مسعود
آئنہ دیکھ ذرا کیا میں غلط کہتا ہوں
آئنہ دیکھ ذرا کیا میں غلط کہتا ہوں تو نے خود سے بھی کوئی بات چھپا رکھی ہے انور مسعود
میں نے انورؔ اس لیے باندھی کلائی پر گھڑی
میں نے انورؔ اس لیے باندھی کلائی پر گھڑی وقت پوچھیں گے کئی مزدور بھی رستے کے بیچ انور مسعود
پلکوں کے ستارے بھی اڑا لے گئی انورؔ
پلکوں کے ستارے بھی اڑا لے گئی انورؔ وہ درد کی آندھی کی سر شام چلی تھی انور مسعود
صرف محنت کیا ہے انورؔ کامیابی کے لئے
صرف محنت کیا ہے انورؔ کامیابی کے لئے کوئی اوپر سے بھی ٹیلیفون ہونا چاہئے انور مسعود
ہاں مجھے اردو ہے پنجابی سے بھی بڑھ کر عزیز
ہاں مجھے اردو ہے پنجابی سے بھی بڑھ کر عزیز شکر ہے انورؔ مری سوچیں علاقائی نہیں انور مسعود
جو ہنسنا ہنسانا ہوتا ہے
جو ہنسنا ہنسانا ہوتا ہے رونے کو چھپانا ہوتا ہے انور مسعود
سوچتا ہوں کہ بجھا دوں میں یہ کمرے کا دیا
سوچتا ہوں کہ بجھا دوں میں یہ کمرے کا دیا اپنے سائے کو بھی کیوں ساتھ جگاؤں اپنے انور مسعود
تم آ گئے تو چمکنے لگی ہیں دیواریں
تم آ گئے تو چمکنے لگی ہیں دیواریں ابھی ابھی تو یہاں پر بڑا اندھیرا تھا انور مسعود
Qita
ان کے بغیر فصل بہاراں بھی برگ ریز
ان کے بغیر فصل بہاراں بھی برگ ریز وہ ساتھ بیٹھ جائیں تو رکشا بھی مرسڈیز یہ باہمی کشش کا کرشمہ ہے دوستو رشوت ہمیں
آپ کرائیں ہم سے بیمہ چھوڑیں سب اندیشوں کو
آپ کرائیں ہم سے بیمہ چھوڑیں سب اندیشوں کو اس خدمت میں سب سے بڑھ کر روشن نام ہمارا ہے خاصی دولت مل جائے گی
کبھی ہو گیا میسر نہ ہوا کبھی میسر
کبھی ہو گیا میسر نہ ہوا کبھی میسر سر عام کیا کہوں میں کہ یہ روز کی ہیں باتیں کبھی میں نے کش لگایا کبھی
لطف نظارہ ہے اے دوست اسی کے دم سے
لطف نظارہ ہے اے دوست اسی کے دم سے یہ نہ ہو پاس تو پھر رونق دنیا کیا ہے تیری آنکھیں بھی کہاں مجھ کو
بھولے سے ہو گئی ہے اگرچہ یہ اس سے بات
بھولے سے ہو گئی ہے اگرچہ یہ اس سے بات ایسی نہیں یہ بات جسے بھول جائیے ہے کس بلا کا فوٹو گرافر ستم ظریف
یہی تو دوستو لے دے کے میرا بزنس ہے
یہی تو دوستو لے دے کے میرا بزنس ہے تمہیں کہو کہ میں کیوں اس سے توڑ لوں ناطہ کروں گا کیا جو کرپشن بھی
جنت سے نکالا ہمیں گندم کی مہک نے
جنت سے نکالا ہمیں گندم کی مہک نے گوندھی ہوئی گیہوں میں کہانی ہے ہماری روٹی سے ہمیں رغبت دیرینہ ہے انورؔ یہ نان کمٹمنٹ
دعا
میری آنکھوں کو یہ آشوب نہ دکھلا مولا اتنی مضبوط نہیں تاب تماشا میری میرے ٹی وی پہ نظر آئے نہ ڈسکو یارب لب پہ
بخیہ تو اس سے ایک بھی سیدھا نہیں لگا
بخیہ تو اس سے ایک بھی سیدھا نہیں لگا آڑا لگا دیا کوئی ترچھا لگا دیا ٹیلر کی بد حواسیاں مجھ سے نہ پوچھیے اس
موٹے شیشوں کی ناک پہ عینک
موٹے شیشوں کی ناک پہ عینک کان میں آلۂ سماعت ہے منہ میں مصنوعی ایک بتیسی چوتھے مصرعے کی کیا ضرورت ہے انور مسعود
دفعتاً انورؔ خیال آیا ہے آج اس مرغ کا
دفعتاً انورؔ خیال آیا ہے آج اس مرغ کا شوربہ پینے کے بعد اور بوٹیاں کھانے کے بعد اللہ اللہ ایک برقی سرد خانے کے
جو چوٹ بھی لگی ہے وہ پہلی سے بڑھ کے تھی
جو چوٹ بھی لگی ہے وہ پہلی سے بڑھ کے تھی ہر ضرب کربناک پہ میں تلملا اٹھا پانی رسوئی گیس کا بجلی کا فون
Humour/Satire
ہے آپ کے ہونٹوں پہ جو مسکان وغیرہ
ہے آپ کے ہونٹوں پہ جو مسکان وغیرہ قربان گئے اس پہ دل و جان وغیرہ بلی تو یوں ہی مفت میں بدنام ہوئی ہے
مرد ہونی چاہیے خاتون ہونا چاہیے
مرد ہونی چاہیے خاتون ہونا چاہیے اب گرامر کا یہی قانون ہونا چاہیے رات کو بچے پڑھائی کی اذیت سے بچے ان کو ٹی وی
تم بھول گئے شاید
وہ جو دودھ شہد کی کھیر تھی وہ جو نرم مثل حریر تھی وہ جو آملے کا اچار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد
سر درد میں گولی یہ بڑی زود اثر ہے
سر درد میں گولی یہ بڑی زود اثر ہے پر تھوڑا سا نقصان بھی ہو سکتا ہے اس سے ہو سکتی ہے پیدا کوئی تبخیر
طے ہو گیا ہے مسئلہ جب انتساب کا
طے ہو گیا ہے مسئلہ جب انتساب کا اب یہ بھی کوئی کام ہے لکھنا کتاب کا کھایا ہے سیر ہو کے خیالی پلاؤ آج
تجھے مجھ سے مجھ کو تجھ سے جو بہت ہی پیار ہوتا
تجھے مجھ سے مجھ کو تجھ سے جو بہت ہی پیار ہوتا نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا ترا ہر مرض الجھتا مری
داخل دفتر
کلرکوں کی سبھی میزوں پہ انورؔ ہر اک فائل مزے سے سو رہی ہے اگرچہ کام سارے رک گئے ہیں مگر میٹنگ برابر ہو رہی
سپر مین
میں نے کہا کہ آپ نے روک لیا ہے کیوں ہمیں اس نے کہا تم ایسی بات اپنی زباں پہ لائے کیوں تم تو ہو
درد و درماں
یہی درماں ہے میری اقتصادی تیرہ بختی کا مرے اندر کوئی پھوٹے کرن خود احتسابی کی مری منصوبہ بندی میں چھپی ہے قرض کی دیمک
جوہر و جواہر
اگر ہیں تیغ میں جوہر جواہر میں خمیرے میں ادھر زور آزمائی ہے ادھر طاقت کے نسخے ہیں مطب میں اور میدان دغا میں فرق
ایک بیرا دوسرے سے
اتنے سادہ لوگ میں نے آج تک دیکھے نہیں چائے پینے کے لیے ہوٹل میں کیسے آ گئے کاغذوں کو بھی بچارے خوردنی سمجھا کئے
لاثانی زنانی
اپنی زوجہ کے تعارف میں کہا اک شخص نے دل سے ان کا معترف ہوں میں زبانی ہی نہیں چائے بھی اچھی بناتی ہیں مری