Bashar Nawaz
- 18 August 1935-9 July 2015
- Aurangabad, Hyderabad State, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
چپ چاپ سلگتا ہے دیا تم بھی تو دیکھو
چپ چاپ سلگتا ہے دیا تم بھی تو دیکھو کس درد کو کہتے ہیں وفا تم بھی تو دیکھو مہتاب بکف رات کسے ڈھونڈ رہی
روز کہاں سے کوئی نیاپن اپنے آپ میں لائیں گے
روز کہاں سے کوئی نیاپن اپنے آپ میں لائیں گے تم بھی تنگ آ جاؤ گے اک دن ہم بھی اکتا جائیں گے چڑھتا دریا
آہٹ پہ کان در پہ نظر اس طرح نہ تھی
آہٹ پہ کان در پہ نظر اس طرح نہ تھی ایک ایک پل کی ہم کو خبر اس طرح نہ تھی تھا دل میں درد
عکس ہر روز کسی غم کا پڑا کرتا ہے
عکس ہر روز کسی غم کا پڑا کرتا ہے دل وہ آئینہ کہ چپ چاپ تکا کرتا ہے بہتے پانی کی طرح درد کی بھی
بہت تھا خوف جس کا پھر وہی قصا نکل آیا
بہت تھا خوف جس کا پھر وہی قصا نکل آیا مرے دکھ سے کسی آواز کا رشتا نکل آیا وہ سر سے پاؤں تک جیسے
ہر نئی رت میں نیا ہوتا ہے منظر میرا
ہر نئی رت میں نیا ہوتا ہے منظر میرا ایک پیکر میں کہاں قید ہے پیکر میرا میں کہاں جاؤں کہ پہچان سکے کوئی مجھے
گھٹتی بڑھتی روشنیوں نے مجھے سمجھا نہیں
گھٹتی بڑھتی روشنیوں نے مجھے سمجھا نہیں میں کسی پتھر کسی دیوار کا سایا نہیں جانے کن رشتوں نے مجھ کو باندھ رکھا ہے کہ
جب چھائی گھٹا لہرائی دھنک اک حسن مکمل یاد آیا
جب چھائی گھٹا لہرائی دھنک اک حسن مکمل یاد آیا ان ہاتھوں کی مہندی یاد آئی ان آنکھوں کا کاجل یاد آیا سو طرح سے
کوئی صنم تو ہو کوئی اپنا خدا تو ہو
کوئی صنم تو ہو کوئی اپنا خدا تو ہو اس دشت بے کسی میں کوئی آسرا تو ہو کچھ دھندلے دھندلے خواب ہیں کچھ کانپتے
ربط ہر بزم سے ٹوٹے تری محفل کے سوا
ربط ہر بزم سے ٹوٹے تری محفل کے سوا رنجشیں سب کی گوارا ہیں ترے دل کے سوا ایسے پہلو میں سما جاؤ کہ جیسے
جب کبھی ہوں گے تو ہم مائل غم ہی ہوں گے
جب کبھی ہوں گے تو ہم مائل غم ہی ہوں گے ایسے دیوانے بھی اس دور میں کم ہی ہوں گے ہم تو زخموں پہ
سارے منظر فسوں تماشا ہیں
سارے منظر فسوں تماشا ہیں کل گھٹائیں تھیں آج دریا ہیں کوئی یادوں سے جوڑ لے ہم کو ہم بھی اک ٹوٹتا سا رشتہ ہیں
Nazm
کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی
کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی گزرتے وقت کی ہر موج ٹھہر جائے گی یہ چاند بیتے زمانوں کا آئنہ ہوگا بھٹکتے
ایک خواہش
اب کی بار ملو جب مجھ سے پہلی اور بس آخری بار ہنس کر ملنا پیار بھری نظروں سے تکنا ایسے ملنا جیسے ازل سے
مجھے کہنا ہے
نہیں میں یوں نہیں کہتا کہ یہ دنیا جہنم اور ہم سب اس کا ایندھن ہیں نہیں یوں بھی نہیں کہتا کہ ہم جنت کے
فاصلہ
نہ پھر وہ میں تھا نہ پھر وہ تم تھے نہ جانے کتنی مسافتیں درمیاں کھڑی تھیں اس ایک لمحے کے آئینے پر نہ جانے
پتہ نہیں وہ کون تھا
میں جیسے درد کا موسم گھٹا بن کر جو بس جاتا ہے آنکھوں میں دھنک کے رنگ خوشبو نذر کرنے کی تمنا لے کے جس
مجھے جینا نہیں آتا
میں جیسے درد کا موسم گھٹا بن کر جو بس جاتا ہے آنکھوں میں دھنک کے رنگ خوشبو نذر کرنے کی تمنا لے کے جس
وقت کے کٹہرے میں
سنو تمہارا جرم تمہاری کمزوری ہے اپنے جرم پہ رنگ برنگے لفظوں کی بے جان ردائیں مت ڈالو سنو تمہارے خواب تمہارا جرم نہیں ہیں
تو ایسا کیوں نہیں کہتے
تو ایسا کیوں نہیں کہتے کہ یہ سپنے ہی میرے کرب کے ضامن ہیں ان کے ہی سبب سے میں جھلستے ریگ زاروں میں برہنہ
ازل تا ابد
افق تا افق یہ دھندلکے کا عالم یہ حد نظر تک نم آلود سی ریت کا نرم قالیں کہ جس پر سمندر کی چنچل جواں
آنے والے مصنفین کے نام
ایک رقعہ لکھیں اور یوں لکھیں ہم تو اپنے دور کی بے رنگیوں بد عہدیوں اور نفرتوں کی مردہ تفصیلات کی زندہ کہانی اپنے خوں
وصال
جب کسی تمتماتے ہوئے جسم کا سرسراتا ہوا پیرہن رس بھرے سنترے کے چمکدار چھلکے کی مانند اترنے لگے گا دھندلکے میں سوئے ہوئے نرم
نارسا
مجھے خواب اپنا عزیز تھا سو میں نیند سے نہ جگا کبھی مجھے نیند اپنی عزیز ہے کہ میں سر زمین پہ خواب کی کوئی
Sher
وہ بھی کوئی ہم ہی سا معصوم گناہوں کا پتلا تھا
وہ بھی کوئی ہم ہی سا معصوم گناہوں کا پتلا تھا ناحق اس سے لڑ بیٹھے تھے اب مل جائے منائیں گے بشر نواز
کس طرح کناروں کو ہے سینے سے لگائے
کس طرح کناروں کو ہے سینے سے لگائے ٹھہرے ہوئے پانی کی ادا تم بھی تو دیکھو بشر نواز
کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی
کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی گزرتے وقت کی ہر موج ٹھہر جائے گی بشر نواز
پیار کے بندھن خون کے رشتے ٹوٹ گئے خوابوں کی طرح
پیار کے بندھن خون کے رشتے ٹوٹ گئے خوابوں کی طرح جاگتی آنکھیں دیکھ رہی تھیں کیا کیا کاروبار ہوئے بشر نواز
جانے کن رشتوں نے مجھ کو باندھ رکھا ہے کہ میں
جانے کن رشتوں نے مجھ کو باندھ رکھا ہے کہ میں مدتوں سے آندھیوں کی زد میں ہوں بکھرا نہیں بشر نواز
دے نشانی کوئی ایسی کہ سدا یاد رہے
دے نشانی کوئی ایسی کہ سدا یاد رہے زخم کی بات ہے کیا زخم تو بھر جائیں گے بشر نواز
بہت تھا خوف جس کا پھر وہی قصا نکل آیا
بہت تھا خوف جس کا پھر وہی قصا نکل آیا مرے دکھ سے کسی آواز کا رشتا نکل آیا بشر نواز
تجھ میں اور مجھ میں تعلق ہے وہی
تجھ میں اور مجھ میں تعلق ہے وہی ہے جو رشتہ ساز اور مضراب میں بشر نواز
تیز ہوائیں آنکھوں میں تو ریت دکھوں کی بھر ہی گئیں
تیز ہوائیں آنکھوں میں تو ریت دکھوں کی بھر ہی گئیں جلتے لمحے رفتہ رفتہ دل کو بھی جھلسائیں گے بشر نواز
کہتے کہتے کچھ بدل دیتا ہے کیوں باتوں کا رخ
کہتے کہتے کچھ بدل دیتا ہے کیوں باتوں کا رخ کیوں خود اپنے آپ کے بھی ساتھ وہ سچا نہیں بشر نواز
کوئی یادوں سے جوڑ لے ہم کو
کوئی یادوں سے جوڑ لے ہم کو ہم بھی اک ٹوٹتا سا رشتہ ہیں بشر نواز
یہ اہتمام چراغاں بجا سہی لیکن
یہ اہتمام چراغاں بجا سہی لیکن سحر تو ہو نہیں سکتی دیئے جلانے سے بشر نواز