Ghulam Muhammad Qasir
- 4 September 1944 - 20 February 1999
- Paharpur, Dera Ismail Khan, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا اسی کی شکل مجھے چاند میں نظر آئے
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو ہر پتا نا آسودہ
کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا
کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا تصویر نہیں بدلی شیشہ بھی نہیں بدلا نظریں بھی
کہیں لوگ تنہا کہیں گھر اکیلے
کہیں لوگ تنہا کہیں گھر اکیلے کہاں تک میں دیکھوں یہ منظر اکیلے گلی میں ہواؤں کی سرگوشیاں ہیں گھروں میں مگر سب صنوبر اکیلے
گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے گھر کا سناٹا کہتا ہے
گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے گھر کا سناٹا کہتا ہے اس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے اک خواب نما
ہم نے تو بے شمار بہانے بنائے ہیں
ہم نے تو بے شمار بہانے بنائے ہیں کہتا ہے دل کہ بت بھی خدا نے بنائے ہیں لے لے کے تیرا نام ان آنکھوں
ہر ایک پل کی اداسی کو جانتا ہے تو آ
ہر ایک پل کی اداسی کو جانتا ہے تو آ مرے وجود کو تو دل سے مانتا ہے تو آ وفا کے شہر میں اب
پہلے اک شخص میری ذات بنا
پہلے اک شخص میری ذات بنا اور پھر پوری کائنات بنا حسن نے خود کہا مصور سے پاؤں پر میرے کوئی ہاتھ بنا پیاس کی
اکیلا دن ہے کوئی اور نہ تنہا رات ہوتی ہے
اکیلا دن ہے کوئی اور نہ تنہا رات ہوتی ہے میں جس پل سے گزرتا ہوں محبت ساتھ ہوتی ہے تری آواز کو اس شہر
شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے
شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے خار چمن تھے شبنم شبنم پھول بھی
یاد اشکوں میں بہا دی ہم نے
یاد اشکوں میں بہا دی ہم نے آ کہ ہر بات بھلا دی ہم نے گلشن دل سے گزرنے کے لیے غم کو رفتار صبا
نظر نظر میں ادائے جمال رکھتے تھے
نظر نظر میں ادائے جمال رکھتے تھے ہم ایک شخص کا کتنا خیال رکھتے تھے جبیں پہ آنے نہ دیتے تھے اک شکن بھی کبھی
Nazm
تضاد
یزید نقشۂ جور و جفا بناتا ہے حسین اس میں خط کربلا بناتا ہے یزید موسم عصیاں کا لا علاج مرض حسین خاک سے خاک
ایک ذاتی نظم
میں اکثر دیکھنے جاتا تھا اس کو جس کی ماں مرتی اور اپنے دل میں کہتا تھا یہ کیسا شخص؟ ہے اب بھی جیے جاتا
دعا اور بد دعا کے درمیاں
دعا اور بد دعا کے درمیاں جب رابطے کا پل نہیں ٹوٹا تو میں کس طرح پہنچا بددعائیں دینے والوں میں میں ان کی ہمنوائی
اٹلانٹک سٹی
زمین نور و نغمہ پر خدائے رنگ کے بکھرے ہوئے جلووں کو پہچانیں اسے سمجھیں۔ اسے جانیں یقیں آ جائے تو مانیں یہاں تو کہکشاں
کہف القحط
پیربخش بلڈنگ سے پیربخش کے مرقد تک اپنی ہی بخشش کی دعاؤں کے کرب زار سے گزر کر آنے والی سر پر گزشتہ ماہ و
زندگی
زندگی اتنی سادہ بھی نہیں کہ ایک بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی سیٹ اس کے رنگوں کا احاطہ کر سکے مگر رنگین سیٹ بھی تو
اونچے درجے کا سیلاب
زمیں کا حسن سبزہ ہے مگر اب سبز پتے زرد ہو کر جھڑتے جاتے ہیں بہاریں دیر سے آتی ہیں جگنو ہے نہ تتلی ۔۔۔خوشبوؤں
سمیتا پاٹل
دل کے مندر میں خوشبو ہے لوبان کی، گھنٹیاں بج اٹھیں، دیو داسی تھی وہ کتنے سرکش اندھیروں میں جلتی رہی دیکھنے میں تو مشعل
Sher
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا غلام محمد قاصر
گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے گھر کا سناٹا کہتا ہے
گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے گھر کا سناٹا کہتا ہے اس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے غلام محمد قاصر
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو غلام محمد قاصر
تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتا
تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتا ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے غلام محمد
دن اندھیروں کی طلب میں گزرا
دن اندھیروں کی طلب میں گزرا رات کو شمع جلا دی ہم نے غلام محمد قاصر
کتاب آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں
کتاب آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں ترے تکیے کے نیچے بھی ہمارے خواب رکھے ہیں غلام محمد قاصر
ہر بچہ آنکھیں کھولتے ہی کرتا ہے سوال محبت کا
ہر بچہ آنکھیں کھولتے ہی کرتا ہے سوال محبت کا دنیا کے کسی گوشے سے اسے مل جائے جواب تو اچھا ہو غلام محمد قاصر
سب سے اچھا کہہ کے اس نے مجھ کو رخصت کر دیا
سب سے اچھا کہہ کے اس نے مجھ کو رخصت کر دیا جب یہاں آیا تو پھر سب سے برا بھی میں ہی تھا غلام
بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا غلام محمد قاصر
کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا
کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا غلام محمد قاصر
پہلے اک شخص میری ذات بنا
پہلے اک شخص میری ذات بنا اور پھر پوری کائنات بنا غلام محمد قاصر
ہم نے تمہارے غم کو حقیقت بنا دیا
ہم نے تمہارے غم کو حقیقت بنا دیا تم نے ہمارے غم کے فسانے بنائے ہیں غلام محمد قاصر