Saghar Siddiqui
- 14 Aug 1928-19 July 1974
- Ambala, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Saghar Siddiqui was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
میں تلخی حیات سے گھبرا کے پی گیا
میں تلخی حیات سے گھبرا کے پی گیا غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے یزداں
جھوم کر گاؤ میں شرابی ہوں
جھوم کر گاؤ میں شرابی ہوں رقص فرماؤ میں شرابی ہوں ایک سجدہ بنام مے خانہ دوستو آؤ میں شرابی ہوں لوگ کہتے ہیں رات
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے
ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں
ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں میں نے پلکوں سے در یار پہ دستک دی ہے
وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو
وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو یہ کناروں سے کھیلنے والے ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو بندہ
روداد محبت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
روداد محبت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے دو دن کی مسرت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے جب جام دیا
تاروں سے میرا جام بھرو میں نشے میں ہوں
تاروں سے میرا جام بھرو میں نشے میں ہوں اے ساکنان خلد سنو میں نشے میں ہوں کچھ پھول کھل رہے ہیں سر شاخ مے
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے منزل نہیں ہوں خضر نہیں راہزن نہیں منزل کا راستہ
محفلیں لٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
محفلیں لٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا ہر مسرت غم دیروز کا عنوان بنی وقت کی
اے دل بے قرار چپ ہو جا
اے دل بے قرار چپ ہو جا جا چکی ہے بہار چپ ہو جا اب نہ آئیں گے روٹھنے والے دیدہ اشک بار چپ ہو
بات پھولوں کی سنا کرتے تھے
بات پھولوں کی سنا کرتے تھے ہم کبھی شعر کہا کرتے تھے مشعلیں لے کے تمہارے غم کی ہم اندھیروں میں چلا کرتے تھے اب
پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دئیے
پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دئیے پانی میں عکس چاند کا دیکھا تو رو دئیے نغمہ کسی نے ساز پہ چھیڑا تو
Naat
ہمیں جو یاد مدینے کا لالہ زار آیا
ہمیں جو یاد مدینے کا لالہ زار آیا تصورات کی دنیا پہ اک نکھار آیا کبھی جو گنبد خضرا کی یاد آئی ہے بڑا سکون
Sher
رنگ اڑنے لگا ہے پھولوں کا اب تو آ جاؤ! وقت نازک ہے ساغر صدیقی
یہ کناروں سے کھیلنے والے ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو ساغر صدیقی
مر گئے جن کے چاہنے والے ان حسینوں کی زندگی کیا ہے ساغر صدیقی
بے ساختہ بکھر گئی جلووں کی کائنات آئینہ ٹوٹ کر تری انگڑائی بن گیا ساغر صدیقی
اب نہ آئیں گے روٹھنے والے دیدہ اشک بار چپ ہو جا ساغر صدیقی
چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے ساغر صدیقی
ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں ساغر صدیقی
ہم بنائیں گے یہاں ساغرؔ نئی تصویر شوق ہم تخیل کے مجدد ہم تصور کے امام ساغر صدیقی
چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلف یار کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا ساغر صدیقی
جن سے زندہ ہو یقین و آگہی کی آبرو عشق کی راہوں میں کچھ ایسے گماں کرتے چلو ساغر صدیقی
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں ساغر صدیقی
Qita
قافلے منزل مہتاب کی جانب ہیں رواں
قافلے منزل مہتاب کی جانب ہیں رواں میری راہوں میں تری زلف کے بل آتے ہیں میں وہ آوارۂ تقدیر ہوں یزداں کی قسم لوگ
آہ! تیرے بغیر یہ مہتاب
آہ! تیرے بغیر یہ مہتاب ایک بے سر کی لاش ہو جیسے کسی دوزخ کے آتشیں یہ پھل آتش آمیز قاش ہو جیسے ساغر صدیقی
زندگی اور شراب کی لذت
زندگی اور شراب کی لذت اک نرالا سرور دیتی ہے ایک کرتی ہے کاروبار خدا ایک ترغیب حور دیتی ہے ساغر صدیقی
ہر ماہ لٹ رہی ہے غریبوں کی آبرو
ہر ماہ لٹ رہی ہے غریبوں کی آبرو چڑھنے لگا ہلال قضا دام چڑھ گئے اے وقت مجھ کو غیرت انساں کی بھیک دے روٹی
کوئی تازہ الم نہ دکھلائے
کوئی تازہ الم نہ دکھلائے آنے والے خوشی سے ڈرتے ہیں لوگ اب موت سے نہیں ڈرتے لوگ اب زندگی سے ڈرتے ہیں ساغر صدیقی
اے کہ تخلیق بحر و بر کے خدا
اے کہ تخلیق بحر و بر کے خدا مجھ پہ کتنا کرم کیا تو نے میری کٹیا کے دیپ کی خاطر آندھیوں کو جنم دیا
ایک بہکی ہوئی نظر تیری
ایک بہکی ہوئی نظر تیری رخ نئی کونپلوں کے موڑ گئی ایک بے نام درد کی ٹھوکر چاندنی کے ظروف توڑ گئی ساغر صدیقی
ساقیا ایک جام پینے سے
ساقیا ایک جام پینے سے جنتیں لڑکھڑا کے ملتی ہیں لالہ و گل کلام کرتے ہیں رحمتیں مسکرا کے ملتی ہیں ساغر صدیقی
چشم کو اعتبار کی زحمت
چشم کو اعتبار کی زحمت دل کو صبر و شکیب دیتا ہے آئنے میں نہ عکس ہستی دیکھ آئینہ بھی فریب دیتا ہے ساغر صدیقی
ہم فقیروں کی صورتوں پہ نہ جا
ہم فقیروں کی صورتوں پہ نہ جا ہم کئی روپ دھار لیتے ہیں زندگی کے اداس لمحوں کو مسکرا کر گزار لیتے ہیں ساغر صدیقی
بے قراری میں بھی اکثر درد مندان جنوں
بے قراری میں بھی اکثر درد مندان جنوں اے فریب آرزو تیرے سہارے سو گئے جن کے دم سے بزم ساغرؔ تھی حریف کہکشاں اے
ایک شبنم کے قطرے کی تقدیر کو
ایک شبنم کے قطرے کی تقدیر کو آزماتی رہی رات بھر چاندنی صبح دیکھا شگوفے تھے ٹوٹے ہوئے گل کھلاتی رہی رات بھر چاندنی ساغر