Bashir Badr
- 15 February 1935
- Faizabad, United Provinces, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
یوں ہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر میں رہا کرو
یوں ہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر میں رہا کرو وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو کوئی
اگر تلاش کروں کوئی مل ہی جائے گا
اگر تلاش کروں کوئی مل ہی جائے گا مگر تمہاری طرح کون مجھ کو چاہے گا تمہیں ضرور کوئی چاہتوں سے دیکھے گا مگر وہ
ہمارا دل سویرے کا سنہرا جام ہو جائے
ہمارا دل سویرے کا سنہرا جام ہو جائے چراغوں کی طرح آنکھیں جلیں جب شام ہو جائے کبھی تو آسماں سے چاند اترے جام ہو
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں اور جام ٹوٹیں گے اس شراب خانے میں موسموں کے
ابھی اس طرف نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنوار لوں
ابھی اس طرف نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنوار لوں مرا لفظ لفظ ہو آئینہ تجھے آئنے میں اتار لوں میں تمام دن
سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے
سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے با وضو ہو کے بھی چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے میں ترے ساتھ ستاروں سے
محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا
محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا اگر گلے نہیں ملتا تو ہاتھ بھی نہ ملا گھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ عہدے تھے
سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا
سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا اتنا مت چاہو اسے وہ بے وفا ہو جائے گا ہم بھی دریا ہیں ہمیں اپنا
اگر یقیں نہیں آتا تو آزمائے مجھے
اگر یقیں نہیں آتا تو آزمائے مجھے وہ آئنہ ہے تو پھر آئنہ دکھائے مجھے عجب چراغ ہوں دن رات جلتا رہتا ہوں میں تھک
ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے
ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے ساحل پہ سمندر کے خزانے نہیں آتے پلکیں بھی چمک اٹھتی ہیں سوتے میں ہماری آنکھوں کو ابھی
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے خطاوار سمجھے گی دنیا تجھے اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے
Sher
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا بشیر بدر
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے بشیر بدر
یاروں کی محبت کا یقیں کر لیا میں نے
یاروں کی محبت کا یقیں کر لیا میں نے پھولوں میں چھپایا ہوا خنجر نہیں دیکھا بشیر بدر
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی بڑی آرزو تھی ملاقات کی بشیر بدر
زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں
زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے بشیر بدر
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں بشیر بدر
یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کر دے بشیر بدر
ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں بشیر بدر
اتنی ملتی ہے مری غزلوں سے صورت تیری
اتنی ملتی ہے مری غزلوں سے صورت تیری لوگ تجھ کو مرا محبوب سمجھتے ہوں گے بشیر بدر
بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا
بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا بشیر بدر
محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا
محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا اگر گلے نہیں ملتا تو ہاتھ بھی نہ ملا بشیر بدر
مسافر ہیں ہم بھی مسافر ہو تم بھی
مسافر ہیں ہم بھی مسافر ہو تم بھی کسی موڑ پر پھر ملاقات ہوگی بشیر بدر
Qisse
راحت کا رنگ
مؤناتھ بھنجن میں مشاعرہ ہورہا تھا۔ بشیربدر نظامت کررہے تھے۔ ’راحت اندوری‘ جن کا رنگ گہرا سانولا سلونا ہے، ان کی سرمستی کا دور تھا،
شاعری کے تارا مسیح اور امروہہ کے بھٹو
امروہہ میں مشاعرہ بہت سکون سے چل رہا تھا۔ شاعر بھی مطمئن اور سننے والے بھی خوش کہ بیچ مجمع سے ایک بہت معقول شخصیت
کنور کی دو آنکھیں
نینی تال کلب میں مشاعرہ ہورہاتھا اور نظامت کررہے تھے جناب کنور مہندر سنگھ بیدی سحر۔ مشاعرے کے اختتام پر جب بشیر بدر اور وسیم
عیب دار کی قربانی
جھریا (دھنباد) بہار میں جناب کنور مہندر سنگھ بیدی کی نظامت میں مشاعرہ ہورہا تھا۔ مرحوم ناظرخیامی نے اپنے مزاحیہ کلام اور اس سے بھی
اعظم گڑھ کے سامعین، بیکل، وسیم اور بشیر کی پریشانی
اعظم گڑھ کے ایک قصبہ میں سامعین کا یہ موڈ ہوگیا کہ پرانی غزل پر پرانا کلام نہیں سنیں گے۔ بیکل اتساہی اور وسیم بریلوی