Mir Babar Ali Anees
- 1800-10 December 1874
- Faizabad, India
Introduction
میر انیس 1802 کو فیض آباد میں پیدا ہوئے تھے. اس کے والد میر مصطفیٰان خالیق اپنے دور کے مشہور شاعر تھے. شاعری ان کی فطرت میں اس کے دادا زاہک کی حیثیت سے تھی ، اور مسنوی سحر البیان انکے دادا میر حسن کی تصنیف تھی۔ ان سب کا شمار اپنے زمانے کے مشہور شاعروں میں کیا جاتا تھا۔ اس خاندان کے شاعروں نے غزلوں کے علاوہ ایک مختلف ٹریک لیا اور اس چیز کو بلندیوں تک لے گئے جس کو انہوں اپنایا۔
شاعروں کے گھر میں پیدا ہوئے۔ انیس کا کردار اس کے بچپن سے ہی متوازن تھا ، اور چار یا پانچ سال کی عمر میں ، انہوں نے شعر کہنے شروع کر دۓ تھے. انہیں اپنی ابتدائی تعلیم فیض آباد میں ملی. اپنی معمول کی تعلیم کے علاوہ ، اس نے جنگ کے فن میں بھی مہارت حاصل کی. عربی اور فارسی کے ساتھ ، وہ ہندی کے بارے میں بھی بہت دلچسپ تھا اور اسے تلسی داس اور ملک محمد جیسے کے کاموں میں اچھی طرح سے تربیت حاصل تھی. کہا جاتا ہے کہ اس نے بچپن میں ہی خود کو ہندو مذہب سے واقف کیا تھا. برہمن کے طالب علم سے لے کر ایک مذہبی آدمی تک وہ صحیفوں کو سمجھنے جاتا تھا. اسی طرح ، جب اس علاقے میں کوئی فوت ہوتا تو ، وہ اس جگہ کی خواتین کے دکھ کے اظہار کا مطالعہ کرتا تھا. بعد میں یہ الفاظ اس کے مرثیہ رائٹنگ میں استعمال ہوئے تھے۔
انیس نے بہت ہی نادان عمر میں شاعری لکھنا شروع کی. جب وہ نو سال کا تھا تو اس نے سلام کہا. اس نے اسے اپنے والد کو دکھایا. اس کے والد بہت خوش تھے لیکن انہوں نے کہا کہ وہ علم حاصل کرے ، اور انہیں شاعری پر توجہ نہیں دینی چاہئے. وہ غزلیں تحریر کرتا تھا لیکن انہوں نے انہیں فیض آباد کے مشاعروں میں نہیں پڑھا. بعد میں ان کے والد نے انہیں انکی شاعرانہ صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لئے شیخ امام بخش نصرک سے شاعرانہ فن سیکھنے کے لئے دے دیا گیا تھا. جب ناسک نے اسکی شاعری دیکھی تو وہ حیران رہ گئے کہ اتنی کم عمر میں ، لڑکا ایسی ہنر مند نظمیں لکھ رہا تھا. انہوں نے اپنے کاموں میں کوئی اصلاح کرنا ضرورت سے زیادہ سمجھا لیکن اس نے نشاندہی کی کہ لڑکا اپنے شاعرانہ کاموں کے لئے انیس نام اپنائے۔
تیرہ سال کی عمر میں ، انیس نے اپنے والد کی عدم موجودگی میں گھر کی خواتین کے گروپ کے لئے ایک مسداس لکھی. اس کے بعد ، اس نے مارثیہ لکھنا شروع کیا. وہ اپنے آپ کو کمرے میں بند کرتا تھا ، کھانا کھاتا تھا اور شراب پیتا تھا ، اور صرف اس وقت باہر جاتا تھا جب مرثیہ مکمل ہوجاتا تھا. وہ کہا کرتا تھا ، “جب آپ روتے ہیں تو آپ کا دل سے خون بہہ جاتا ہے.” تب میر خالق نے اسے لکھنؤ کے ذائقہ دار اور تنقیدی سامعین سے متعارف کرایا اور میر انیس کی شہرت پھیلائی۔
اودھ کے آخری نوابوں کے دور میں ، غازی-د-ڈین حیدر ، امجد علی شاہ ، اور واجید علی شاہ ، انیس نے مرثیہ کی شاعری میں بڑی شہرت حاصل کی. ان کے ہم عصر ، اور اتنے ہی عمدہ مرثیہ کمپوزر مرزا دبیر نے محض پڑھنے کا انتخاب کیا ، جبکہ انیس نے خوبصورت شاعری میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا. بعد میں ، ان دو خوبصورت اعلی شاعروں کے بہت سے مداح پیدا ہوئے. انیسیا اور دیگر کا نام دبیریا رکھا گیا. انیس اور دبیر نے کسی بھی اجلاس میں مشترکہ طور پر نوحہ خوانی نہیں کی. انیس اور دبیر کا عام طور پر دوستانہ رشتہ تھا اور دونوں نے ایک دوسرے کے کمال کو پسند کیا۔
1856 میں ، انگریزوں نے اودھ کو نوآبادیاتی نوآبادیاتی بنایا. اسے ملک بدر ہونے پر مجبور کیا گیا. انہوں نے مختلف جگہوں پر مجلس کو پڑھا جس کا اثر یہ ہوا کہ دور اور وسیع تر لوگ انکی نظموں سے واقف ہوگئے. انیس کا دل آزاد خیال تھا اور اسے اپنے آپ پر کسی قسم کا کنٹرول پسند نہیں تھا.
انیس کی تقریر حیرت انگیز ہے۔ جیسے ہی وہ کمال پر پہنچا ، اس کی شخصیت بدل گئی. وہ اپنے جسم سے واقف نہیں تھا. کوئی بھی اس سے زیادہ سوگ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا. اپنے آخری سالوں میں ، اس نے ماتم کرنا کم کردیا تھا. 1874 میں ، اس کے چچا لکھنؤ میں فوت ہوگئے. انہوں نے تقریبا 200 خوبصورت اور 125 سلام لکھے ، اس کے علاوہ اس کی یاد میں تقریبا 600 کواٹرینز بھی ہیں۔
انیس کام میں ایک باصلاحیت شخص تھا. اگر اس نے سوگ کے بجائے غزلیں کہنے کو ترجیح دی ہوتی تو پھر بھی اس کا شمار عظیم شاعروں میں ہوتا. غزلوں کو ترجیح نہ دینے کے باوجود ، ان کی بہت سی نظمیں مشہور ہیں. انیس کی تقریر ان کی تخیل اور زبان کی تخلیقی تکنیک سے ظاہر ہوتی ہے. وہ ایک ایسا شاعر تھا جو ایک پھول کو سو استخارے دینے کے قابل تھا. وہ مرثیہ کے فن میں گہرائی سے ڈوبا اور اس طرح کے قیمتی زیورات دریافت کیے جو اردو .میں غیر معمولی ہیں۔
Ghazal
شہید عشق ہوئے قیس نامور کی طرح
شہید عشق ہوئے قیس نامور کی طرح جہاں میں عیب بھی ہم نے کیے ہنر کی طرح کچھ آج شام سے چہرہ ہے فق سحر
وجد ہو بلبل تصویر کو جس کی بو سے
وجد ہو بلبل تصویر کو جس کی بو سے اوس سے گل رنگ کا دعویٰ کرے پھر کس رو سے شمع کے رونے پہ بس
کوئی انیس کوئی آشنا نہیں رکھتے
کوئی انیس کوئی آشنا نہیں رکھتے کسی کی آس بغیر از خدا نہیں رکھتے کسی کو کیا ہو دلوں کی شکستگی کی خبر کہ ٹوٹنے
سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو
سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو ہم آسمان سے لائے ہیں ان زمینوں کو پڑھیں درود نہ کیوں دیکھ کر حسینوں کو خیال صنعت
خود نوید زندگی لائی قضا میرے لیے
خود نوید زندگی لائی قضا میرے لیے شمع کشتہ ہوں فنا میں ہے بقا میرے لیے زندگی میں تو نہ اک دم خوش کیا ہنس
اشارے کیا نگہ ناز دل ربا کے چلے
اشارے کیا نگہ ناز دل ربا کے چلے ستم کے تیر چلے نیمچے قضا کے چلے گنہ کا بوجھ جو گردن پہ ہم اٹھا کے
نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں
نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں وہ جاگتے ہیں جو دنیا کو خواب سمجھے ہیں کبھی برا نہیں جانا کسی کو اپنے سوا
ابتدا سے ہم ضعیف و ناتواں پیدا ہوئے
ابتدا سے ہم ضعیف و ناتواں پیدا ہوئے اڑ گیا جب رنگ رخ سے استخواں پیدا ہوئے خاکساری نے دکھائیں رفعتوں پر رفعتیں اس زمیں
مرا راز دل آشکارا نہیں
مرا راز دل آشکارا نہیں وہ دریا ہوں جس کا کنارا نہیں وہ گل ہوں جدا سب سے ہے جس کا رنگ وہ بو ہوں
Marsiya
جب رن میں سر بلند علی کا علم ہوا
1 جب رن میں سر بلند علی کا علم ہوا فوجِ خدا پہ سایۂ ابرِ کرم ہوا چرخ زبر جدی پے تسلیم خم ہوا پنجے
آج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے
آج شبیرؔ پہ کیا عالم تنہائی ہے ظلم کی چاند پہ زہراؔ کی گھٹا چھائی ہے اس طرف لشکرِ اعدا میں صف آرائی ہے یاں
بخدا فارس میدان تہور تھا حُر
بخدا فارس میدان تہور تھا حُرؔ ایک دو لاکھ سواروں میں بہادر تھا حُرؔ نارِ دوزخ سے ابوذرؔ کی طرح حُر تھا حُرؔ گوہرِ تاجِ
یارب چمن نظم کو گلزار ارم کر
یارب چمن نظم کو گلزار ارم کر اے ابرِ کرم خشک زراعت پہ کرم کر تو فیض کا مبدا ہے توجہ کوئی دَم کر گمنام
جب زلف کو کھولے ہوئے لیلائے شب آئی
جب زلف کو کھولے ہوئے لیلائے شب آئی پردیس میں سادات پہ، آفت عجب آئی فریاد کناں روح امیر عرب آئی غل تھا کہ شب
آمد آمد حرم شاہ کی دربار میں ہے
آمد آمد حرم شاہ کی دربار میں ہے صبح سے جشن کا غل شام کے بازار میں ہے صحبتِ عیشِ طرب مجلس غدار میں ہے
دشت وغا میں نور خدا کا ظہور ہے
دشت وغا میں نور خدا کا ظہور ہے دشت وغا میں نور خدا کا ظہور ہے ذروں میں روشنئ تجلئ طور ہے اک آفتاب رخ
نمک خوان تکلم ہےفصاحت میری
نمک خوان تکلم ہےفصاحت میری ناطقے بند ہیں سن سن کے بلاغت میری رنگ اڑتے ہیں وہ رنگیں ہے عبارت میری شور جس کا ہے
جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے
جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے جلوہ کیاسحر کے رخ بے حجاب نے دیکھا سوئے فلک شہ گردوں رکاب نے مڑ کر صدا رفیقوں
فرزند پیمبر کا مدینے سے سفر ہے
فرزند پیمبر کا مدینے سے سفر ہے سادات کی بستی کے اجڑنے کی خبر ہے در پیش ہے وہ غم، کہ جہاں زیر و زبر
کیا غازیان فوج خدا نام کر گئے
کیا غازیانِ فوجِ خدا نام کر گئے لاکھوں سے تشنہ کام لڑے کام کر گئے امت کی مغفرت کا سر انجام کر گئے فیض اپنا
Rubai
قطرے ہیں یہ سب جس کے وہ دریا ہے علی
قطرے ہیں یہ سب جس کے وہ دریا ہے علی پنہاں ہے کبھی تو گاہ پیدا ہے علی ہوتا ہے گماں خدا کا جس پر
افضل کوئی مرتضیٰ سے ہمت میں نہیں
افضل کوئی مرتضیٰ سے ہمت میں نہیں اس طرح کا بندہ تو حقیقت میں نہیں طوبیٰ تسنیم و خلد و سیب و رمان وہ کیا
اصحاب نے پوچھا جو نبی کو دیکھا
اصحاب نے پوچھا جو نبی کو دیکھا معراج میں حضرت نے کسی کو دیکھا کہنے لگے مسکرا کے محبوب خدا واللہ جہاں دیکھا علی کو
اے مومنو فاطمہؓ کا پیارا شبیر
اے مومنو فاطمہؓ کا پیارا شبیر کل جائے گا بھوکا پیاسا مارا شبیر ہو جائیں گے سب تعزیہ خانے سنسان آج اور ہے مہمان تمہارا
اکبر نے جو گھر موت کا آباد کیا
اکبر نے جو گھر موت کا آباد کیا صغرا کو دم نزع بہت یاد کیا لاشے پہ کمر پکڑ کے کہتے تھے حسین تم نے
شبیر کا غم یہ جس کے دل پر ہوگا
شبیر کا غم یہ جس کے دل پر ہوگا آنسو جو گرے گا شکل گوہر ہوگا پوچھے گا خدا جب ایسے در کی قیمت تب
دکھ میں ہر شب کراہتا ہوں یارب
دکھ میں ہر شب کراہتا ہوں یارب اب زیست کے دن نباہتا ہوں یارب طالب زر و مال کے ہیں سب دنیا میں میں تجھ
فرصت کوئی ساعت نہ زمانے سے ملی
فرصت کوئی ساعت نہ زمانے سے ملی بیگانے سے راحت نہ یگانے سے ملی حقا کہ پلک نواز ہے ذات تری جنت انہیں اشکوں کے
ظاہر وہی الفت کے اثر ہیں اب تک
ظاہر وہی الفت کے اثر ہیں اب تک قربان شہہ جن و بشر ہیں اب تک ہوتے ہیں علم آگے جب اٹھتی ہے ضریح عباس
دشمن کو بھی دے خدا نہ اولاد کا داغ
دشمن کو بھی دے خدا نہ اولاد کا داغ جاتا نہیں ہرگز دل ناشاد کا داغ فرماتے تھے رو کے لاش قاسم پہ حسین اولاد
الفت ہو جسے اسے ولی کہتے ہیں
الفت ہو جسے اسے ولی کہتے ہیں ایسوں کو سعید ازلی کہتے ہیں اس بزم میں دھوپ اٹھا کے آتے ہیں جو لوگ ہنس کر
بے دینوں کو مرتضیٰ نے ایماں بخشا
بے دینوں کو مرتضیٰ نے ایماں بخشا دین داروں کو جنت کا گلستاں بخشا بخشش کا ہے خاتمہ کہ خاتم دے کر درویش کو رتبہ
Sher
خاک سے ہے خاک کو الفت تڑپتا ہوں انیسؔ کربلا کے واسطے میں کربلا میرے لیے میر ببر علی انیس
تمام عمر اسی احتیاط میں گزری کہ آشیاں کسی شاخ چمن پہ بار نہ ہو میر ببر علی انیس
سوائے خاک کے باقی اثر نشاں سے نہ تھے زمیں سے دب گئے دبتے جو آسماں سے نہ تھے میر ببر علی انیس
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانا زمین پر میر ببر علی انیس
مثال ماہیٔ بے آب موج تڑپا کی حباب پھوٹ کے روئے جو تم نہا کے چلے میر ببر علی انیس
عاشق کو دیکھتے ہیں دوپٹے کو تان کر دیتے ہیں ہم کو شربت دیدار چھان کر میر ببر علی انیس
انیسؔ دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے میر ببر علی انیس
انیسؔ آساں نہیں آباد کرنا گھر محبت کا یہ ان کا کام ہے جو زندگی برباد کرتے ہیں میر ببر علی انیس
لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو میر ببر علی انیس
کریم جو تجھے دینا ہے بے طلب دے دے فقیر ہوں پہ نہیں عادت سوال مجھے میر ببر علی انیس
گل دستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں میر ببر علی انیس
تو سراپا اجر اے زاہد میں سر تا پا گناہ باغ جنت تیری خاطر کربلا میرے لیے میر ببر علی انیس