Shakeel Badayuni
- 3 August 1916-20 April 1970
- Badaun, Uttar Pradesh, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Shakeel Badayuni was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
میرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے میں ہوں درد عشق سے جاں بہ لب مجھے زندگی کی دعا
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے آج
آج پھر گردش تقدیر پہ رونا آیا
آج پھر گردش تقدیر پہ رونا آیا دل کی بگڑی ہوئی تصویر پہ رونا آیا عشق کی قید میں اب تک تو امیدوں پہ جئے
غم عاشقی سے کہہ دو رہ عام تک نہ پہنچے
غم عاشقی سے کہہ دو رہ عام تک نہ پہنچے مجھے خوف ہے یہ تہمت ترے نام تک نہ پہنچے میں نظر سے پی رہا
اے عشق یہ سب دنیا والے بیکار کی باتیں کرتے ہیں
اے عشق یہ سب دنیا والے بیکار کی باتیں کرتے ہیں پائل کے غموں کا علم نہیں جھنکار کی باتیں کرتے ہیں ہر دل میں
کوئی آرزو نہیں ہے کوئی مدعا نہیں ہے
کوئی آرزو نہیں ہے کوئی مدعا نہیں ہے ترا غم رہے سلامت مرے دل میں کیا نہیں ہے کہاں جام غم کی تلخی کہاں زندگی
اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے
اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے وہ وقت بھی خدا نہ دکھائے
مری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کا الم نہیں
مری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کا الم نہیں جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ خزاں بہار سے کم نہیں مرا کفر حاصل
کیسے کہہ دوں کی ملاقات نہیں ہوتی ہے
کیسے کہہ دوں کی ملاقات نہیں ہوتی ہے روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے آپ للہ نہ دیکھا کریں آئینہ کبھی دل کا
غم عشق رہ گیا ہے غم جستجو میں ڈھل کر
غم عشق رہ گیا ہے غم جستجو میں ڈھل کر وہ نظر سے چھپ گئے ہیں مری زندگی بدل کر تری گفتگو کو ناصح دل
مری زندگی ہے ظالم ترے غم سے آشکارا
مری زندگی ہے ظالم ترے غم سے آشکارا ترا غم ہے در حقیقت مجھے زندگی سے پیارا وہ اگر برا نہ مانیں تو جہان رنگ
یہ دنیا ہے یہاں دل کو لگانا کس کو آتا ہے
یہ دنیا ہے یہاں دل کو لگانا کس کو آتا ہے ہزاروں پیار کرتے ہیں نبھانا کس کو آتا ہے یہ دنیا ہے یہاں دل
Nazm
اک شہنشاہ نے بنوا کے
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے اس کے سائے میں سدا پیار کے چرچے ہوں
علی گڑھ چھوڑنے کے بعد
ہم نشیں رات کی مغموم خموشی میں مجھے دور کچھ دھیمی سی نغموں کی صدا آتی ہے جیسے جاتی ہوئی افسردہ جوانی کی پکار جس
مجھے بھول جا
مرے ساقیا مجھے بھول جا مرے دل ربا مجھے بھول جا نہ وہ دل رہا نہ وہ جی رہا نہ وہ دور عیش و خوشی
ان کی تصویر دیکھ کر
آج کیا ہے جو ملا شوخ نگاہوں کو قرار؟ کیا ہوا حسن کی معصوم حیاؤں کا وقار آج کیوں تم مجھے دیکھے ہی چلے جاتے
زلزلہ
ایک شب ہلکی سی جنبش مجھے محسوس ہوئی میں یہ سمجھا مرے شانوں کو ہلاتا ہے کوئی آنکھ اٹھائی تو یہ دیکھا کہ زمیں ہلتی
کہاں ہے آ جا
راحت بندۂ بے دام کہاں ہے آ جا پیکر حسن سر بام کہاں ہے آ جا رونق بزم ہے او جام کہاں ہے آ جا
نمائش علی گڑھ
شفق نزع میں لے رہی تھی سنبھالا اندھیرے کا غم کھا رہا تھا اجالا ستاروں کے رخ سے نقاب اٹھ رہی تھی فضاؤں سے موج
رقاصۂ حیات سے
پھولوں پہ رقص اور نہ بہاروں پہ رقص کر گلزار ہست و بود میں خاروں پہ رقص کر ہو کر جمود گلشن جنت سے بے
Sher
اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے
اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے شکیل بدایونی
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا شکیل بدایونی
ان کا ذکر ان کی تمنا ان کی یاد
ان کا ذکر ان کی تمنا ان کی یاد وقت کتنا قیمتی ہے آج کل شکیل بدایونی
کیسے کہہ دوں کہ ملاقات نہیں ہوتی ہے
کیسے کہہ دوں کہ ملاقات نہیں ہوتی ہے روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے شکیل بدایونی
جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی
جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی شکیل بدایونی
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا شکیل بدایونی
میرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے میں ہوں درد عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دعا نہ
کبھی یک بہ یک توجہ کبھی دفعتاً تغافل
کبھی یک بہ یک توجہ کبھی دفعتاً تغافل مجھے آزما رہا ہے کوئی رخ بدل بدل کر شکیل بدایونی
انہیں اپنے دل کی خبریں مرے دل سے مل رہی ہیں
انہیں اپنے دل کی خبریں مرے دل سے مل رہی ہیں میں جو ان سے روٹھ جاؤں تو پیام تک نہ پہنچے شکیل بدایونی
مجھے چھوڑ دے میرے حال پر ترا کیا بھروسہ ہے چارہ گر
مجھے چھوڑ دے میرے حال پر ترا کیا بھروسہ ہے چارہ گر یہ تری نوازش مختصر میرا درد اور بڑھا نہ دے شکیل بدایونی
مجھے دوست کہنے والے ذرا دوستی نبھا دے
مجھے دوست کہنے والے ذرا دوستی نبھا دے یہ مطالبہ ہے حق کا کوئی التجا نہیں ہے شکیل بدایونی
محبت ہی میں ملتے ہیں شکایت کے مزے پیہم
محبت ہی میں ملتے ہیں شکایت کے مزے پیہم محبت جتنی بڑھتی ہے، شکایت ہوتی جاتی ہے شکیل بدایونی
Naat
تمنا ہے کہ مرتے وقت بھی ہم مسکراتے ہوں
تمنا ہے کہ مرتے وقت بھی ہم مسکراتے ہوں زباں پر یا محمد ہو جب اس دنیا سے جاتے ہوں بنے اے کاش اس دم