اب سمجھ آئی مرتبہ سمجھے گم کیا خود کے تیں خدا سمجھے اس قدر جی میں ہے دغا اس کے کہ دعا کریے تو دغا سمجھے کچھ سمجھتے نہیں ہمارا حال تم سے بھی اے بتاں خدا سمجھے نکتہ داں بھی خدا نے تم کو کیا پر ہمارا نہ مدعا سمجھے غلط اپنا کہ اس جفا جو کو سادگی سے ہم آشنا سمجھے لکھے دفتر کتابیں کیں تصنیف پر نہ طالع کا ہم لکھا سمجھے میرؔ صاحب کا ہر سخن ہے رمز بے حقیقت ہے شیخ کیا سمجھے