اس مسافت میں کتنے در گزرے تیری منزل سے ہم کدھر گزرے تھے مسافر سفر جچا نہ جنہیں قافلے ان پہ رات بھر گزرے میری آنکھوں کو چھوڑنے والے میرا دروازہ بند کر گزرے رات پابند ہے تو دن بخشو آ بھی جاؤ کہ دوپہر گزرے بد گمانی سے کیا بچیں گے ہم بد گمانی جو آپ پر گزرے کیا گزرتی رہی گزرنے تک اور گزرے تو بے اثر گزرے بزم ہستی میں یار عامرؔ خاں مرنے آئے تھے اور کر گزرے